آپ شاید اپنے بچوں سے یہ باتیں کہتی ہوں گی جیسے ’’آنے دو اپنے ابو کو، شکایت کروں گی تمہاری‘‘ یا ’’اپنی بہن جیسے بنو!‘‘۔ مگر ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اپنے بچوں سے آپ کو نہیں کہنی چاہئیں۔ اسی میں، آپ کی اور آپ کے بچوں کی بھلائی ہے۔(1)بہت اچھے! یا شاباش!:تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہر بار آپ کے بچے کی جانب سے کوئی نئی بات سیکھنے پر ’’بہت اچھے‘‘ یا ’’شاباش‘‘ وغیرہ جیسے عام سے الفاظ کہنا بجائے اس میں اعتماد پیدا کرنے کے، آگے بڑھنے کے لیے اسے آپ کی تعریف کا محتاج بنا دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی تعریف مناسب و موزوں مواقع پر کریں اور مختصر الفاظ استعمال کریں یعنی بجائے اس کے کہ ’’بہت اچھا کھیلے‘‘ یہ کہیں کہ ’’اپنے ساتھیوں کا تم نے اچھی طرح ہاتھ بٹایا‘‘۔(2)محنت میں عظمت :سچ ہے کہ بچہ جتنا زیادہ وقت سیکھنے میں صرف کرے گا اس کی مہارت اتنی ہی بڑھے گی۔ مگر دوسری جانب یہ پرانی کہاوت اس دبائو کو بڑھا سکتی ہے جو آپ کا بچہ جیتنے یا مہارت حاصل کرنے کے لیے برداشت کررہا ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں۔ ’’اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ اگر آپ سے غلطی ہوگئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے محنت نہیں کی۔ اکثر ایسے بچوں کو دیکھا گیا ہے جو اپنے آپ سے یہی سوال کر کے خود کو کوس رہے ہوتے ہیں کہ میرے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ میں مسلسل محنت کررہا ہوں مگر پھر بھی سب سے بہتر نہیں‘‘۔ اس کے بجائے اپنے بچوں کو مزید محنت کرنے کی ترغیب دیں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس کی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور اس بہتری پر اسے فخر بھی ہوگا۔ (3)تمہیں کچھ نہیں ہوا:آپ کے بچے کو اگر چوٹ لگ جائے اور وہ دھاڑیں مار کر رونا شروع کردے تو یقیناً آپ کا دل اسے یہ تسلی دینے کو چاہے گا کہ اسے زیادہ چوٹ نہیں لگی۔ لیکن یہ کہنے سے کہ ’تمہیں کچھ نہیں ہوا‘ ممکن ہے کہ وہ اور زیادہ بُرا محسوس کرنے لگے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ’’آپ کا بچہ اس لیے رو رہا ہے کہ اسے کچھ ہوا ہے‘‘۔ اس صورت حال میں آپ کا کام ہے بچے کو اس کے جذبات سمجھنے اور ان پر قابو پانے میں مدد دیں، ان کی نفی نہ کریں۔ اسے سینے سے لگائیں اور کچھ ایسا کہہ کر کہ ’’واقعی تمہیں تو چوٹ لگی ہے‘‘ اس کے محسوسات کو تسلیم کریں۔ پھر اس سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ پٹی کی جائے یا اسے پیار کیا جائے!(4)جلدی کرو:اس کے باوجود کہ اسے سکول کے لیے دیر ہورہی ہے آپ کا بچہ اپنے جوتوں کے تسمے خود باندھنے کی ضد کررہا ہے (حالانکہ ابھی اسے تسمے باندھنا ٹھیک طرح سے نہیں آئے)۔ مگر اسے جلدی کرنے کو کہنا اس پر دبائو بڑھا دے گا۔ ایسے موقع پر اپنا لہجہ نرم رکھتے ہوئے کہنا چاہیے ’’دیر ہو جائے گی بیٹا‘‘ جس سے یہ پیغام جائے گا کہ آپ دونوں ایک ہی مشکل کا سامنا کررہے ہیں۔ کام جلدی کرنے کے عمل کو کھیل میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے یہ کہہ کر کہ ’’دیکھیں پہلے کون اپنا یونیفارم پہنتا ہے!‘‘۔(5)میں ڈائٹنگ کررہی ہوں:آپ وزن میں کمی کررہی ہیں؟ یہ بات اپنے تک رکھیں۔ اگر آپ کا بچہ ہر روز آپ کو ترازو پر کھڑے ہوکر وزن کرتے اور خود کو ’’موٹی‘‘ کہتے ہوئے سنے گا تو انسانی جسم کے بارے میں وہ غلط تصور تخلیق کرسکتا ہے اس کی بجائے یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ’’میں صحت بخش غذائیں استعمال کررہی ہوں کیونکہ اس سے میں ہشاش بشاش رہتی ہوں‘‘ یہی طریقہ ورزش کیلئے بھی استعمال کریں کیونکہ ’’مجھے ورزش کرنی ہے‘‘ سے یہ تاثر مل سکتا ہے کہ یہ ایک بوجھ ہے جبکہ یہ کہنے سے کہ ’’آج کا دن بہت اچھا ہے۔ میں ٹہلنے جارہی ہوں‘‘ آپ کی بچی یا بچہ متاثر ہوکر آپ کیساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں