عبدالسلام جن کی واپسی
کل کی بات ہے میرا ایک پرانا دوست جس کا بہت عرصہ پہلے میں نے تذکرہ کیا تھا عبدالسلام جن۔ نہایت نیک‘ مخلص شریف‘ عامل‘ تسبیح کرنے والا ذکر کرنے والا اور اللہ کے خزانوں سے ہروقت مانگنے اور گڑگرانے والا دوست آیا۔ میں نے دیکھا تو بہت پریشان حال تھا‘ حالات پوچھے‘ پتہ چلا کہ اس کے گھر پر جادو ہوگیا؟ مجھے حیرت اس لیے نہ ہوئی کہ جنات‘ جنات پر جادو بہت کرتے ہیں اورجنات‘ جنات پر حملے بہت کرتے ہیں کیونکہ جنات آگ سے ہیں‘ انسان مٹی سے ہیں‘ مٹی میں ٹھہراؤ ہے اور آگ میں ہمیشہ جلن‘ کینہ‘ حسد‘ بغض اور انتقام ہے۔ اس لیے جنات کا غصہ اور جنات کا انتقام بہت زیادہ ہوتا ہے اور جنات غصہ اور انتقام میں ہمیشہ ایک دوسرے کو بہت زیادہ ذلیل ‘خوار‘ رسوا پریشان اور جادو کا ہر حیلہ اختیار کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا ہوا کیا ہے،کہنے لگے: گھر میں ہروقت بیماری ہے‘ ہر فرد بیمار‘ ہر فرد کو تکلیف‘ پریشانی اور مشکل ہے۔ گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں جس کو سکون ہو‘ چین ہو‘ راحت ہو‘ بس مشکل ہی مشکل پریشانی ہی پریشانی اور مسلسل تکالیف ہیں‘ گھر کے اندر کھانا ہروقت خراب ہوجاتا ہے‘ چیزیں پڑی پڑی ٹوٹ جاتی ہیں‘ ہر فرد نیند سے محروم‘ چین ‘سکون سے دور چلا گیا ۔راحت نام کی چیز ان کے قریب کبھی نہیں آئی‘ مسلسل بے برکتی‘ پریشانی حتیٰ کہ اب تو جھگڑے بھی بہت زیادہ ہونا شروع ہوگئے ہیں‘ بس یہی کیفیات مسلسل ہیں اور انہی کیفیات سے میں تھک گیا ہوں دل میں آیا کہ اب اس کا حل آپ ہی کریں تو اس لیے میں آج آپ کے پاس چلا آیا۔
عبدالسلام جن واقعہ سناتے ہوئے رو پڑا
مجھے عبدالسلام کا آج وہ دن یاد آیا جس کو بہت سال ہوگئے جس دن عبدالسلام سے میری پہلی ملاقات ہوئی اور عبدالسلام جن نے اس پہلی ملاقات میں ایک واقعہ سنایا تھا آج میں نے وہی واقعہ خود عبدالسلام جن کو سنایا۔ عبدالسلام جن اس واقعہ کو سن کر رو دیا ‘عبدالسلام جن کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ اس کے دل میں خیال آیا کہ میں کیوں نہ وادی برہوت میں جاؤں ‘واضح رہے کہ وادی برہوت اور برہوت کنواں یہ دو منفرد چیزیں ہیں۔
عاملین‘ جادوگراور غیبی علوم رکھنے والوں کا میلہ
کہنے لگے : میں وادی برہوت کے سفر پر چل پڑا اور سفر پر چلتے ہوئے میرے ساتھ دو جنات اور بھی تھے ایک بہت بوڑھے جن تھے‘ صدیوں ان کی عمر تھی‘ ایک وہ تھے جو جوان تھے ‘ہم برہوت کا سفر بڑے ذوق شوق سے کررہے تھے‘ ہماری طلب تھی اور سچا جذبہ تھا کیونکہ وادی برہوت وہ وادی ہے جہاں ہر سال جنات کا ایک میلہ لگتا ہے‘ اور پوری دنیا سے جنات وہاں جمع ہوتے ہیں‘ لاکھوں کےقریب اور پوری دنیا سے جنات وہاں ایک عمل کرتے ہیں لیکن وہ میلہ ہماری طرح کا میلہ نہیں ہوتا جیسے ہمارے ہاں میلہ ہوتا ہے بلکہ وہ میلہ وہ میلہ ہوتا ہے کہ جس میں پوری دنیا کے عامل‘ جادوگر‘ کامل‘ شعبدہ گر اور مختلف غیبی علوم رکھنے والے تمام جنات اکٹھے ہوتے ہیں اور پھر انوکھے انوکھے کمالات اور کرشمات دکھاتے ہیں یہ میلہ صرف جنات کا ہی ہوتا ہے انسان نہ اس کو دیکھ سکتے ہیں نہ جاتے ہیں۔
شاہ جنات کو دیکھنے کا شوق
عبدالسلام جن کہنے لگا کہ مجھے اصل میں وادی برہوت نے اس جگہ کو دیکھنے کا شوق تھا جس جگہ میلے کے دوران شاہ جنات کا تخت سجتا ہے اور شاہ جنات اس تخت پر براجمان ہوتے ہیں کہنے لگے: ایک جگہ مجھے رات پڑگئی اور ہمارے ہاں جنات کے رات دن کا کوئی مسئلہ نہیں ہم رات دن میں سفر کرتے ہیں میرے جی میں آیا یہاں کسی مسجد میں رات کا قیام کرلوں میں کسی گاؤں کی پرانی ویران مسجد میں گیا دو ساتھی میرے ساتھ تھے‘ ہم نے جاکر وہاں عشاء کی نماز پڑھی‘ معلوم یہ ہوتا تھا کہ ہمارے جانے سے پہلے وہاں عشاء کی نماز ہوچکی تھی‘ وہاں کچھ ذکر کیا‘ تسبیحات کیں‘ اس کے بعد ہم نے ابھی سونے کی ترتیب بنائی ہی تھی تو اچانک ایک بابا جی مسجد میں آئے‘ دروازہ کھولا اور یااللہ زور سے کہہ کر ایک چٹائی پر کھڑے ہوئے اور نماز میں قرآن پڑھنا شروع کردیا‘ وہ قرآن ہلکی اونچی آواز میں پڑھ رہے تھے ایسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ قرآن اپنے لفظوں جوڑوں اور حرفوں کے ساتھ جدا جدا ہوگیا ہے اور ہرحرف، ہر جوڑ، ہر لفظ، ہر زیر، ہر زبر، ہر جزم، ہر پیش اور ہر مد کے اندر سے حتیٰ کہ ہر نقطے کے اندر سے نور ہی نور نکل رہا ہے اور خیر ہی خیر نکل رہی ہے۔
کیا قرآن اس طرح بھی کوئی پڑھ سکتا ہے؟
ہمیں اپنا سونا بھول گیا‘ سونے کی ساری ترتیب ہم کھو بیٹھے‘ بلکہ ہم نے ایک کونے میں لگ کر باباجی کا قرآن سننا شروع کردیا‘ قرآن ایسی طرز ایسی کیفیت اور وہ باباجی ایسے درد کے ساتھ پڑھ رہے تھے کہ میں خود قرآن پڑھتا ہوں میں خود قرآن جانتا ہوں‘ میں نے قرآن کی تفسیر پڑھی ہے لیکن وہ قرآن پڑھنے کا انداز کوئی اور تھا‘ اس کا انداز‘ اس کا لہجہ اس کا درد‘ اس کا سوز وہ ایسا تھا کہ میرے گمان‘ خیال اور احساس میں نہیں تھا کہ ویسا قرآن کبھی کوئی پڑھ بھی سکتا ہے اور ویسا قرآن کبھی کوئی سن بھی سکتا ہے بس انہی سوچوں اور انہی کیفیات کے ساتھ ہم نے قرآن سننا شروع کیا اور قرآن سنتے سنتے حتیٰ کہ ہمارے آنسو بہنا شروع ہوگئے‘ ہم بمشکل اپنی سسکیاں اور ہچکیاں روک سکے‘ پہلا پارہ گیا‘ تیسرہ پارہ گیا ‘دس پارے ہوگئے ۔ہم نے سمجھا کہ شاید ابھی باباجی قیام میں جائیں گے‘ پندرہ پارے ہوگئے حتیٰ کہ اکیس پارے جب ہوئے تو اکیسویں پارے پر باباجی خود رونا شروع ہوگئے اور ان کی اکیسویں پارے پر ہچکی بندھ گئی اور ایسی ہچکی بندھی کہ کیفیات بے خود ہوگئیں‘ حتیٰ کہ باباجی اس روتے روتے کیفیات کے ساتھ قرآن پڑھتے گئے۔
یہ انسان ہے یا کوئی فرشتہ؟
ہم جنات حیران! ہم نے جنات کا قرآن سنا ان کا قرآن کا ذوق بہت زیادہ ہے لیکن آج تک کسی انسان کا ایسا قرآن نہیں سنا یہ انسان ہے یا کوئی فرشتہ ہے؟ اس کا اتنا جذبہ اتنا ذوق اور اتنا درد کہ عقل حیران‘ جذبے اپنی پوری وجدانی کیفیات کے ساتھ قرآن کی طرف متوجہ تھے حتیٰ کہ عین تہجد کے وقت باباجی نے قرآن ختم کیا اوررکوع میں چلے گئے بہت لمبا رکوع پھر لمبے سجدے پھر دوسری رکعت میں صرف سورۂ اخلاص پڑھ کر وہ اپنی نماز کو ختم کربیٹھےاور انہوں نے سلام پھیرا‘ اور پھر دعا میں مشغول ہوگئے اور اتنی درد کی دعا اور اتنے غم کی دعا اور اس درد اور کیفیت کی دعا کہ وہ بھی روتے رہے ہم بھی روتے رہے‘ اسی اثناء میں مؤذن آیا۔ اس نے باہر اذان دی‘ باباجی نے دعا ختم کی اور پھر سنتیں پڑھیں اور ہم نے بھی فجر کی نماز پڑھی‘ نماز کے بعد وہ درویش مسلسل ذکر کرتے رہے اور دل ہی دل میں ذکر کرتے رہے‘ ان کے ساتھ کوئی محبت اور وابستگی ایسی ہوگئی کہ ہمیں وقت گزرنے کا احساس نہ رہا ‘یوں ساری رات گزر گئی اور حتیٰ کہ دن چڑھ گیا۔
انسانوں کے روپ میں آکر ان سے بات کی
انہوں نے اشراقپڑھی پھر ذکر کرتے رہے‘ پھر کرتے کرتے بہت دیر کے بعد انہوں نے چاشت کے نفل پڑھے اب ہمیں احساس ہوا کہ کیا یہ کھاتے نہیں پیتے نہیں‘ کیا ان کے اندر دل ہے جسم ہے روح ہے آخر یہ کون ہیں؟ ہمارے دل میں آیا کہ اب یہ مسجد سے باہر جائیں ہم انسانوں کے روپ میں آکر ان سے باتیں کریں اب دل ہی دل میں دعا کرنے لگے کہ یااللہ اب ان کی عبادت کو ختم کر‘ ان کو شدت کی بھوک لگے اوریہ یہاں سے نکلیں ‘ہماری دعا نکلی اچانک آہ بھر کر وہ اٹھے اور مسجد سے باہر نکلے ہم تین انسانوں کی شکل میں دور سے راستے میں آتے نظر آئے ہم نے انہیں کہا کہ ہم پردیسی ہیں‘ یہاں آئے ہیں اور ہم آپ کے مہمان بننا چاہتے ہیں‘ انہوں نے غور سے دیکھا اور کہنے لگے ٹھیک ہے مجھے خوشی ہے آپ میرے مہمان بنے‘ وہ ہمیں گھر لے گئے‘ ایک سادہ سا گھر تھا جس میں ان کی بہو‘ بیٹے‘ بچے اور ایک بڑا سا گھرانہ لیکن سادہ سا ہمیں ایک پرانے کمرے میں چٹائی پر بٹھا دیا‘ ہم بیٹھ گئے‘ کچھ ہی دیر میں کچھ سادہ سا کھانا‘ دودھ‘ روٹی اور سالن ہمارے سامنے لاکر انہوں نے رکھ دیا‘ خود بھی ہمارے پاس بیٹھے اور کھانا شروع کردیا‘ ہم بھی کھاتے رہے کھانا مختصر مگرسادہ لیکن اس میں لذت سکون اور سرور اتنا کہ شاید ہم نہ کھاتے ہوئے بھی بہت کھاگئے۔
میں ایک چھوٹا سا کاشتکار ہوں!
کھانے کےبعد دعا مانگی اور ہمارے جی میں آیا کہ ان سے باتیں کریں کھانے کے دوران بھی میں نے باتیں شروع کرہی دی تھیں‘ ان سے میں نے سوال کیا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے: میں کاشت کاری کرتا ہوں ایک چھوٹا سا کاشت کار ہوں اور ایک چھوٹا سا سفید پوش غریب انسان ہوں تو میں نے پوچھا کہ آپ اپنی زندگی کی ترتیب کیسے چلاتے ہیں؟
27 سال پہلے مالدار مگر عیاش اور رئیس تھا
کہنے لگے: آج سے پورے ستائیس سال پہلے میں اپنے گاؤں کا ایک بہت بڑا مالدار لیکن عیاش اور بدمعاش انسان تھا مگر میں اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کرتا تھا اور ان کو کبھی دکھ نہیں دیتا تھا ۔ مگر کوئی زمانے کا ایسا شخص نہیں تھا جس کو میں نے دکھ نہ دیا ہو‘ میرے دکھ اور تکالیف سے میری اولاد اور میرے بچے بھی بچے ہوئے نہیں تھے۔ وہ بھی میرے دکھ اور تکالیف کے ستائے ہوئے تھے‘ ایک دن میں نے دیکھا کہ میری والدہ بیٹھی ہیں ہاتھ میں مٹی کا ایک کٹورہ لیے اور پانی پی رہی ہیں میں دروازہ سے گھر کے اندر آیا میرا بہت بڑا گھر تھا میری والدہ کٹورہ منہ تک لے جاتے جاتے رکگئیں اور بیٹھ کر مجھے اشارہ کیا میں انہی کی چارپائی پر ان کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا مجھ سے کہنے لگیں: دیکھ بیٹا میرا جانے کا وقت آگیا ہے اور میری بات کو توجہ سے سننا‘۔
دو باتیں مان لے! بخت ہمیشہ تیرا پیچھا کرے گا
میں تجھے دو باتوں کی نصیحت کرتی ہوں اگر کرلے گا دولت‘ دنیا‘ زندگی‘ عروج‘ کمال اور بخت سدا تیرے پیچھے اور تیری جھولی ہمیشہ بھری رہے گی‘ ایک اپنی بیوی کو سکون دے‘ اس سے پیار کر ‘اس سے محبت کر ‘اس سے سخت اور کڑوے بول نہ بول‘ ہمیشہ میٹھے بول بول۔ دوسرا: اپنی اس زندگی سےباز آجا اور اگر نہیں بھی آسکتا تو رات کی تنہائی میں گاؤں کی مسجد میں جاکر محراب کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنا‘ رونا اور اللہ تعالیٰ سے کہنا کہ مولا میں اپنی گناہوں بھری زندگی میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں‘ میں گناہوں کی زندگی نہیں چاہتا‘ میری ماں نے مجھے کہہ دیا ہے اور میں بھی نہیں چاہتا اور میری ماں بھی نہیں چاہتی مولا تو بھی نہیں چاہتا۔اے اللہ! جب میں میری ماں اور تو نہیں چاہتا تو پھر میرے بے بس دل کو تو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور اپنے فضل سے متوجہ کردے۔ ماں نے مزید کہا: بیٹا روز جانا‘ اور آدھی رات میں جب سارا عالم سو رہا ہو اور ساری زندگی لیٹی ہوئی ہو اور انہیں کسی چیز کی سدھ خبر نہ ہو‘ بس اس وقت جاکر مسجد کے محراب میں اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑانا اور اللہ کے سامنے اپنے بے تاب اور مجبور دل کی فریادیں انہی لفظوں میں بیان کرنا ‘میں حیران اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا وہ پیالہ مٹی والا جس کا شاید ابھی پہلا گھونٹ ہی نہیں بھرا گیا تھا‘ ماں کے ہاتھ میں تھا اورماں مجھے بس دو باتوں کی نصیحت کررہی تھی‘ میں نےاماں کی نصیحت سن کر ماں کے پاؤں چوم لیے اور ماں کو کہا اماں آپ کا سایہ ہم پر سلامت رہے‘ ماں فوراً بولی :بیٹا نہیں‘ ماؤں کے سائے ہمیشہ نہیں رہتے ۔ ایک وقت آتا ہے یہ سر سے ہٹ جاتا ہے‘ اور بیٹا یہ میرا پیالہ پکڑ‘ یہ پانی تو پی لے‘ یہ پانی اب میرے نصیب میں نہیں کیونکہ مجھے اب شاید کوئی ایک گھونٹ ایک نوالہ‘ ایک قطرہ ‘ایک ذرہ نصیب نہیں ہوگا۔ رب چاہے گا تو آخرت کی نعمتیں میرے نصیب میں کردے گا۔ میں نے ماں سے پیالہ لیا تو ماں چارپائی پر ایسے ایک پل میں لیٹ گئی اور میں نے پیالہ ایک طرف کرکے ماں کو تھاما تو ماں کے منہ پر میں نے لفظ صرف اللہ سنا اور ماں اس دنیا سے چلی گئی۔
کیا یہی انسان پہلے بدکار اور ڈاکو تھا
وہ باباجی جو اس درد بھری کہانی کو بیان کررہے تھے‘ میں آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے ان کی اس آواز کو سن رہا تھا اور حیران تھا وہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کے اندر کی کیفیات کیا ہیں‘ مجھے حیرت ہوئی کہ میں ان سے کیا سن رہا ہوں؟ مجھےایک انوکھا احساس ہوا‘ کیا یہ انسان اب سے پہلے ایک بدکار اور ڈاکو تھا جس نے اتنا اچھا قرآن پڑھا‘ لیکن میری ابھی سوچیں اور لفظ زبان پر ہی تھے اور دل ہی میں تھے کہ وہ باباجی بولے: پھر کیا تھا بس میری زندگی میں انقلاب آیا‘ میرا لہجہ میرے لفظ‘ میرے بول اور میری کیفیات میری بیوی کے بارے میں بدلنا شروع ہوگئیں میں نے اس کو جتنا دکھ دیا تھا اتنا سکھ دیا‘ جتنا ستایا تھا اتنی اس کو خوشیاں دیں‘ جتنے کڑوے بول بولے تھےاب میٹھے بول بول رہا ہوں‘اب میرے دن اور رات بدل رہے تھے پھر اسی رات میں ماں کو دفن کرنے کے بعد محراب میں گیا‘ میں نے دونوں ہاتھوں سے محراب کو تھاما‘ مجھے ایک ا یسا احساس ہوا کہ ان دونوں ہاتھوں کے اوپر میری ماں کے(باقی صفحہ نمبر50 پر )
(بقیہ: جنات کا پیدائشی دوست (سلسلہ وار))
بوڑھے ہاتھ ہیں‘ ان ہاتھوں کی نرمی اور خلوص میں محسوس کررہا تھا اور وہ ہاتھ پکار پکار کر کہہ رہے تھے اے اللہ! اب تیرے در پر آیا‘ ان ہاتھوں کی لاج رکھ لے‘ اس کو خالی نہ لوٹا‘ میں مسلسل رو رہا تھا اوور ابل ابل کر میرےآنسو نکل رہے تھے‘ میں زندگی میں اتنا نہیں رویا‘ خود ماں کی موت پر اتنا نہیں رویا تھا‘ جتنا اللہ کے گھر اور محراب کو تھام کر رویا تھا‘ مجھے کسی چیز کی خبر نہیں تھی‘ میں روتا رہا اور وہی بات اللہ سے کہتا رہا جو میری ماں نے مجھے کہی تھی اور یہی کہتے کہتے میں وہی گرگیا‘ بہت دیر تک بے سکت ہوکر گرا پڑا رہا اور اللہ تعالیٰ سے یہی فریادیں کرتا رہا‘ پھر اٹھا‘ اپنے آنسو صاف کرکے گھر آیا‘ دوسرے دن لوگ آرہے تھے ماں کی تعزیت کیلئے میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی تھی‘ ماں ہی کیا گئی میرا تو سب کچھ بدل گیا‘ جہاں میرے سر سے وہ سرسبز سایہ ہٹ گیا وہاں میرے اوپر ایک چادر تن گئی اسے میں نور کی چادر کہوں‘ رحمت کی چادر کہوں یا برکت کا ابر کہوں بس! اب مجھے پھر رات کا انتظار تھا وہ رات آئے اور میں پھر جاؤں اور اللہ سے پھر وہی باتیں کروں جو میری ماں نے مجھے پیغام دیا تھا۔ اب اس رات پھر گیا اور پھر وہی رونا پھر وہی فریاد پھر وہی درد بھری باتیں پھر وہی غم کا افسانہ پھر اچانک میرے دل میں خیال آیا میں قرآن یاد کروں‘ پھر میرا شغف قرآن‘ تسبیح‘ نماز‘ جن لوگوں کو میں نے ستایا تھا جن کا حق کھایا تھا ان کا حق میں نے واپس لوٹایا ایک ایک بندے سے معافی مانگی اس کا حق ادا کیا۔عبدالسلام جن کہنے لگا: میں باباجی کی بات سن رہا تھا مجھے حیرت ہورہی تھی کہ میں نے رات کیا دیکھا اور اس سے پہلے کیا تھا اسے ماں کی دعا کہوں‘ یا مسجد کے محراب کی کرامت کہوں‘ میں عبدالسلام جن کا کہا واقعہ سنا رہا تھا جو اس نے سالہا سال پہلے مجھے سنایا تھا آج وہ جادومیں مبتلا پریشان حال تھا۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں