یہ ساری داستان میری آنکھوں کی دیکھی ہوئی ہے‘ ان بچیوں جن پر ظلم ہوتا ان کی چیخیں اب بھی سنائی دیتی ہیں‘ وہ زندہ بیل جس کو دفن کیا گیا اس کا تڑپنا اور بے بسی مجھے نہیں بھولتی۔ جن کی زمینوں پر قبضے کرتا تھا ان بے بسوں کی بے بسی تڑپا دیتی ہے۔
اچھائی یا برائی کا نسلوں پر اثر
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!مجھے دس سال ہوگئے ہیں تسبیح خانہ سے جڑے ہوئے جب سے آپ سے تعلق بنا ہے‘ میں نے بہت کچھ پایا ہے۔ میں نے دیکھا ہے اچھائی ہو یا برائی اس کا اثر نسلوں پر ضرور پڑتا ہے میرے ملنے والے تھے جب پاکستان بنا تو وہ آدمی ایک نیکر پہن کر پاکستان آیا پھر وہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر میں آباد ہوگیا۔ہو تے ہوتے وہ پٹواری بن گیا پٹواری بن کے وہ گائوں کا باپ بن گیا‘ اس نےزمینوں پر قبضے شروع کردئیے‘ اس کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی‘ سارے جوان تھے اس کی بیوی بہت ہی نیک عورت تھی‘ وقت گزرتا گیا ایک دن اس کے پاس ایک کیس آیا کوئی عورت جس کی ایک بیٹی تھی وہ اپنے خاوند سے طلاق لینا چاہتی ہے۔ اس شخص نے اس عورت کی طلاق کروا کے اس سے خود شادی کرلی۔ اس شخص کی پہلی عورت بوڑھی تھی وہ اپنے ایک بیٹے کے پاس چلی گئی اور اپنے خاوندسے پردہ کرنے لگی‘ دوسری بیوی کے گھر دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئی ان بچوں کو میں نے اپنے ہاتھوں سے پالا ہے۔ وہ بچے میرے ساتھ بہت پیار کرتے تھے۔
سلائی مشین الٹی چلاتی اور کچھ پڑھتی
اس شہر کے باہر بائی پاس کے قریب اس شخص کی بہت بڑی اور بہت ہی خوبصورت حویلی تھی۔اس کے نام سے یہ حویلی بہت مشہور ہے۔ اس کی دوسری بیوی کا بھی میرے ساتھ بہت اچھا اخلاق تھا‘ اس کی بیوی غریبوں کی مدد بھی کرتی تھی وہ اصل میں پیچھے سے بہت غریب گھر سے تعلق رکھتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس میں لالچ بڑھتا گیا اور وہ اپنے شوہر کی جائیداد اپنے قبضے میں کرنے لگی اس کی بیٹی جوان ہوگئی تواس شخص نے اس کی شادی قریب کے ایک گائوںکے بہت بڑے زمیندار سے کردی‘ وہ دشمن دار لوگ تھے۔ آخر وہ آدمی ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو چھوڑ کر قتل ہوگیا۔ بیٹی بچوں سمیت گھر آگئی۔ اس شخص کی بیوی نے بیٹی کی اس کے دیور کے ساتھ شادی کیلئے کہا تو وہ نہ مانا‘ اس نے جادو کرنا شروع کردیا ۔ میری آنکھوں دیکھی بات ہے کہ کپڑے سینے والی مشین الٹی چلاتی تھی اور نجانے کیا منہ ہی منہ میں پڑھتی تھی‘ کچھ ہی دنوں کے بعد اس کی بیٹی کا دیور گھر آگیا‘ اس نے بیٹی کا نکاح اس سے کردیا‘ وہ چاہتی تھی جائیداد ساری میرے پاس رہے میری اولاد کو بھی نہ ملے۔
جادو گر سے رابطہ اور زندہ بیل دفن
اس نے بھی کسی جادو گر سے رابطہ کیا اس نے اس کو کہا ایک زندہ بیل لو اور اس کو زندہ زمین میں دفن کردو‘ قارئین! یہ میرے سامنے ہوا ہے‘ اس نے ملازموں کی مدد سے ایک بیل لیا اس کو اپنے گھر کے صحن میں زمین کھود کر زندہ دفن کروادیا اس بیل نے اتنا شور مچایا سارا گائوں اس کی آوازیں سن رہا تھا۔ اس کا شوہر اپنی جوان ملازم لڑکیوں سے زیادتی کرتا‘ حویلی میں ظلم کی انتہاء شروع ہوگئی۔ پھر اللہ کی پکڑ شروع ہوئی‘ سب سے پہلے اس شخص کا جوان بیٹا جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کھلایا تھا اس کی شادی ہوئی 20سال کی عمر میں اس کا ایک بیٹا ہوا پھر بیٹی ہوئی بیٹی اس نے دیکھی بھی نہیں‘ لاہور میں اچانک شیخ زید ہسپتال کے قریب گھر میں مردہ پایا گیا۔ سنا ہے کہ شراب کا نشہ زیادہ کرلیا تھا پھر اس شخص کی بیٹی کی شادی ہوئی تو اسکے چار بیٹے ہیں اسکے خاوند کو کسی نے اغواء برائے تاوان میں بڑی بری طرح قتل کردیا۔ چھوٹی بیٹی کی چار دفعہ طلاق ہوئی۔ ایسی ہوا چلی کہ یہ مشہور حویلی نیلام ہوگئی۔
رئیس کا بیٹا آج فاقے کاٹ رہا
مشہور تاجر نے وہ حویلی خریدی اور خریدتے ہی اس پر بلڈوزر چلا دئیے کیونکہ وہ حویلی اس شخص کے نام سے مشہور تھی‘نہ حویلی رہے گی نہ اس شخص کا نام لینے والا کوئی رہےگا۔
اس شخص کا چھوٹا بیٹا(ش)‘ اس کے دو بیٹے تھے‘ بیوی نے طلاق لے لی‘ منہ میں سونے کا چمچ لینے والا بچہ‘ اسے میں نے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا تھا‘ آج فاقے کاٹ رہا ہے اور اس شہر کی سبزی منڈی میں کام کرتا ہے یہ بالکل سچی کہانی ہے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ آپ سچ فرماتے ہیں ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘اس شہر میں وہ بندہ (پٹواری) بہت مشہور تھا مگر حرام مال اور حرام کام کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوگیا۔ حتیٰ کہ اس کے جس جس ملازم نے اس کے مال پر عیاشی کی وہ تمام ایک ایک کرکے میرے سامنے بری طرح تباہ و برباد ہوئے۔اس کا ایک نوکر (ع) تھا اس کی تمام اولاد اپاہج پیدا ہوئی۔ ایک ڈرائیور آج تک بے اولاد ہے اور مانگ تانگ کر گزار ہ کررہا ہے۔
بیل کا تڑپنا اور بے بسی نہیں بھولتی
میں جب بھی اس گھر کی کہانی دیکھتی ہوں تو میرا جسم کانپنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ساری داستان میری اپنی آنکھوں کی دیکھی ہوئی ہے وہ بچیاں جن پر ظلم ہوتا ان کی چیخیں اب بھی سنائی دیتی ہیں‘ اس زندہ بیل جس کو دفن کیا گیا اس کا تڑپنا اور بے بسی مجھے نہیں بھولتی۔ جن کی زمینوں پر قبضے کرتا تھا ان بے بسوں کی بے بسی تڑپا دیتی ہے۔ میں ہروقت استغفار پڑھتی رہتی ہوں۔
گھر کیسے برباد ہوتے ہیں؟ میں نے دیکھا ہے
آپ سے میں نے انسانیت سے محبت سیکھی ہے آپ کو اللہ جزائے خیر دے۔ میں آپ کا ہر درس سنتی ہوں لوگوں کو بتاتی ہوں ‘ آپ نے نبی کریمﷺ سے عشق کرنا سکھا دیا ہے‘اللہ تعالیٰ سے مانگنا آگیا ہے۔ گھر کیسے تباہ ہوتے ہیں میں نے دیکھا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں