اے اللہ کے رسولؐ! پڑوسی کا حق کیا ہے؟ تو آپﷺ نےفرمایا: اگر وہ تجھے سے مدد مانگے تو اسے مدد مہیا کر اگر ضرورت مند ہوتو اسے عطا کر، اگر بیمار ہوتو اس کی تیمارداری کر، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے پیچھے جا اگر اسے کوئی خیر پہنچے تو تجھے خوشی ہو۔
غیر مسلم ہمسایہ کی اہمیت
دین اسلام میں ہر تعلق، رشتے اور انسان سے وابستہ ہر فرد کی اہمیت، احترام اور مقام کی بہت وضاحت کے ساتھ تفصیل بیان کی گئی ہے بلاشبہ دین اسلام وہ دین ہے کہ جس میں غیر مسلموں کو بھی ان کے بنیادی حقوق سے سرفراز کیا گیا، یہ وہ آفاقی مذہب ہے کہ جس میں گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ غلام اور لونڈی کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا گیا اور یہ ہی وہ دین حق ہے کہ جس میں جانوروں تک کے بنیادی حقوق بڑی ہی وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام میں جہاں رشتہ داری کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہیں رشتہ داروں کے علاوہ ان افراد کی جن کے ساتھ کوئی بھی مومن میل جول رکھتا ہے۔ ان کے حقوق کا بیان موجود ہے۔ بلکہ ہمسایہ کی اہمیت تو اس کے غیر مسلم ہونے کے باوجود مسلمہ ہے۔ اس حوالہ سے ہمسایوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا وہ جو غیر مسلم ہو اس کا حق ایک درجہ ہے دوسرا جو مسلمان ہو مگر رشتہ دار نہ ہو اس کا حق دو درجے ہے یعنی وہ پڑوسی بھی ہے اور مومن بھی اسی طرح تیسرا وہ جو ہمسایہ بھی ہے رشتہ دار ہے اور مومن بھی اسی طرح تیسرا وہ جو ہمسایہ بھی ہے رشتہ دار ہے اور مومن بھی تو اسلام میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے تاکہ ایک مستحسن معاشرہ قائم ہوسکے۔
ایسے پڑوسی سے حسن سلوک! جس سے قرابت نہ ہو
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ سورئہ النساء آیت ۳۶، اس آیت مبارکہ میں قرابت دار پڑوسی کے حوالہ سے استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو، مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن و سلوک کیا جائے رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار احادیث مبارکہ میں بھی اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ یہاں پہلو کے ساتھ سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص ہے جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت وہم نشینی اختیار کرے بلکہ اس کی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم یا کوئی کام سیکھنے کے لیے یا کسی کاروباری سلسلہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ہے، راہ کے مسافر گھر، دکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں۔
سب سے زیادہ حق دار رشتہ دار ہمسائے ہیں
سورئہ النساء کی اس آیت مبارکہ میں تین قسم کے ہمسایوں کا ذکر ہے ایک وہ جو ہمسائے بھی ہوں اور رشتہ دار بھی ہوں دوسرے وہ جو تمہارے پہلو میں یا تمہارے مکان کے پاس تو رہتے ہوں مگر تمہارے رشتہ دار نہ ہوں تیسرے وہ جو تمہاری سوسائٹی سے متعلق ہوں مثلاً وہ دوست احباب جو ایک جگہ مل بیٹھتے ہوں یا کسی دفتر میں یا دوسری جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور اکثر میل ملاقات رہتی ہو، حسن سلوک تو ان سب سے کرنا چاہیے، تاہم اسی ترتیب سے ان کا خیال ضرور رکھا جائے سب سے زیادہ حقدار رشتہ دار ہمسائے ہیں پھر ان کے بعد اپنے گھر کے آس پاس رہنے والے ہمسائے اور ایک روایت کے مطابق ایسے ہمسایوں کی حد چالیس گھروں تک ہے پھر ان کے بعد ان ہمسایوں کی باری آتی ہے جو اپنے ہم نشین‘ ہم جماعت یا ساتھ کام کرنے والے ہوں۔
پڑوسیوں سے حسن سلوک نہ کرنےو الی جہنمی قرار پائی
اسلام نے مختلف وسعت پذیر دائروں میں مسلم معاشرے کی زندگی منظم کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی ہے تاکہ پورا معاشرہ منظم ہو جائے، اس سلسلے میں والدین اور رشتہ داروں کے حقوق سے شروع ہوکر یہ سلسلہ پڑوسیوں، دوستوں اور آشنائوں سے ہوتا ہوا غریبوں اور غیر مسلموں تک جاتا ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ پڑوس کے دائرے کو جس قدر ممکن ہو وسعت دی جائے۔ دین اسلام میں ایک جانب یہ بتایا جارہا ہے کہ جو پڑوسی کا خیال نہ رکھے تو اللہ پاک اس سے ناراض ہو جائے گا یہ بھی کہ جو اپنے ہمسائے کو ستائے وہ مومن ہی نہیں تو ایک جانب یہ بھی وضاحت کی جارہی ہے کہ ایسے شخص کی عبادات بھی قبول نہیں اور وہ جہنم میں جائے گا اس سلسلہ میں ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہﷺ فلاں عورت کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ کرنے میں مشہور ہے لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو ستاتی ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا وہ جہنمی ہے پھر اس نے کہا یا رسول اللہﷺ فلاں عورت نماز،روزہ، اور صدقہ کی کمی میںمشہور ہے وہ صرف پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کرتی ہے۔
پڑوسی کا حق کیا ہے؟حدیث نبویؐ پڑھ لیں!
حقوق ہمسائیگی کا اسلام میں اس قدر بیان ہے کہ ایسا محسوس ہونے لگا گویا کہ پڑوسی آپ کے گھر یا خاندان کا ہی ایک شخص ہو اس بارے میں ایک حدیث مبارکہ میں بیان ہے ’’ایک انصاری صحابیؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضری کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلا وہاں پہنچا تو دیکھا کہ نبی کریمﷺ کھڑے ہیں اور نبی کریمﷺ کے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے جس کا چہرہ نبی کریمﷺ کی طرف ہے میں سمجھا کہ شاید یہ دونوں کوئی ضروری بات کر رہے ہیں بخدا! نبی کریمﷺ اتنی دیر کھڑے رہے کہ مجھے نبی کریمﷺ پر ترس آنے لگا جب وہ آدمی چلا گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! یہ آدمی آپ کو اتنی دیر لے کر کھڑا رہا کہ مجھے آپﷺ پر ترس آنے لگا نبی کریمﷺ نے فرمایا کیا تم نے اسے دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریمﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون تھا؟ میں نے عرض کیا نہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا وہ جبرائیلؑ تھے جو مجھے مسلسل پڑوسی کے متعلق وصیت کررہے تھے حتیٰ کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ وہ اسے وراثت میں بھی حصہ دار قرار دے دیں گے پھر فرمایا اگر تم انہیں سلام کرتے تو وہ تمہیں جواب ضرور دیتے‘‘ (مسند احمد) پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے معاذ بن جبلؓ سے منقولہ ہے کہ ہم نے کہا اے اللہ کے رسولؐ! پڑوسی کا حق کیا ہے؟ تو آپﷺ نےفرمایا: اگر وہ تجھے سے مدد مانگے تو اسے مدد مہیا کر اگر ضرورت مند ہوتو اسے عطا کر، اگر بیمار ہوتو اس کی تیمارداری کر، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے پیچھے جا اگر اسے کوئی خیر پہنچے تو تجھے خوشی ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں