حضورﷺنے ابوجہل سے
ایک اجنبی مسافر کا حق دلوایا
ایک مرتبہ قبیلہ اَراشی کا ایک شخص عمرو بن غوث اپنا ایک اُونٹ لیکر مکہ آیا، جس سے ابوجہل نے وہ اُونٹ خریدا۔ لیکن قیمت کی ادائیگی کو ٹالتا رہا۔ تنگ آکر وہ شخص قریش کی ایک محفل میں آکر کھڑا ہوا۔اس وقت رسول اللہﷺ مسجد (مسجد الحرام ) کے ایک گوشہ میں تشریف رکھتے تھے۔ پس اس شخص نے یوں کہنا شروع کیا:’’اے جماعت قریش! تم میں سے کون ہے جو ابوالحکم بن ہشام سے میرا حق دلوادے؟ کہ میں ایک اجنبی مسافر ہوں اور ابوحکم نے میرا حق غصب کرلیا ہے‘‘ پس اہل مجلس نے اس سے کہا۔ کیا تو اس بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھ رہا ہے؟ ان کی مراد اُس سے رسول اللہﷺ تھے۔ دراصل اس طرح وہ آپﷺ کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ کیونکہ وہ آپ کے اور ابوجہل کے درمیان مخالفت سے واقف تھے۔ پھر اس سے کہا کہ اس شخص کے پاس جا۔ وہ اس (ابوحکم) سے تیرا حق دلوادے گا۔ یہ سن کر وہ اَراشی آنحضرتﷺ کے پاس آکر کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ اے عبداللہ! ابوالحکم بن ہشام نے میراحق غصب کرلیا ہے جسے پہلے اس نے تسلیم کرلیا تھا۔ اور میں ایک اجنبی مسافر ہوں۔ میں نے اس جماعت سے کسی ایسی ہستی کو پوچھا جو اس سے میرا حق دلوا سکے۔ انہوں نے آپ کو بتایا ہے۔ پس آپ اس سے میرا حق دلوا دیں، اللہ آپ پر مہربانی فرمائے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا ’’اس کے پاس چلو‘‘ اور خود اسکے ہمراہ چلنے کو کھڑے ہوگئے۔ جب کفار نے آپﷺ کو اس کے ساتھ کھڑے ہوئے دیکھا تو اپنے ایک آدمی سے کہا کہ تو بھی ان کے پیچھے جا اور جاکر دیکھ (باقی صفحہ نمبر 60 پر)
(بقیہ: پیغمبر اسلام کا غیرمسلموں سے حسن سلوک)
کہ یہ کیا کرتے ہیں۔ پس آنحضرتﷺ مسجد حرام سے روانہ ہوکر ابوجہل کے مکان تک پہنچے اور دروازہ پر دستک دی۔ اس نے کہا کون ہے؟ آپ نے فرمایا محمدؐ(ﷺ) باہر نکلو۔ پس وہ باہر آیا تو اس کے چہرہ پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور اس کا رنگ فق تھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’اس شخص کا مطالبہ پورا کردو‘‘۔
ابوجہل نے کہا ’’بہت اچھا! آپ ٹھہر جائیے میں ابھی اس کا مطالبہ لاتا ہوں‘‘ یہ کہہ کہ اندر گیا، اس کا حق لیکر آیا اور سارا اسے ادا کردیا تب آنحضرتﷺ واپس ہوئے اور اَراشی سے فرمایا ’’جائو اپنا کام کرو‘‘۔
اراشی وہاں سے واپس لوٹا اور لوٹتے ہوئے قریش کی اُسی محفل پر ٹھہر کر کہا: ’’اللہ اُس ہستی کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ اس نے میرا حق مجھے دلوادیا۔‘‘ ساتھ ہی وہ شخص بھی واپس آیا جسے ان لوگوں نے اس کے پیچھے بھیجا تھا۔ سب نے اس سے پوچھا ’’تیرا بُرا ہو جلدی بتا تو نے کیا دیکھا‘‘۔
اس نے جواب دیا کہ ایک حیرت انگیز و عجیب معاملہ دیکھا۔ واللہ! محمدؐ (ﷺ) نے ابوجہل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ فوراً اس طرح باہر نکلا کہ اس کی جان میں جان نہ تھی۔ محمدؐ (ﷺ) نے اس سے کہا کہ اس شخص کا حق ادا کردو۔ اس نے کہا بہت اچھا ٹھہرئیے میں ابھی اس کا حق لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ اندر گیا اور اس کا مطالبہ لاکر اسے دے دیا۔
تھوڑی دیر میں ابوجہل بھی وہاں آپہنچا۔ ان سب نے اس سے کہا کہ تجھ پر افسوس ہے، تجھے کیا ہوگیا؟ (کہ محمدؐ سے اتنا مرعوب ہوگیا) واللہ جیسا تو نے کیا ہے ایسا معاملہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا‘‘۔ ابوجہل نے کہا ’’تمہارا بُرا ہو۔ واللہ جوں ہی محمدؐ (ﷺ) نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور میں نے اس کی آواز سنی تو مجھ پر اُس کا رُعب چھاگیا۔ میں باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اُس کے سر پر ایک بڑا نر اُونٹ ہے کہ میں نے ایسا عظیم الجُثہ موٹی گردن اور بڑے دانتوں والا اُونٹ کبھی نہ دیکھا تھا۔ واللہ اگر میں ادائی حق سے ذرا بھی انکار کرتا تو وہ مجھے کھا جاتا۔ فائدہ: نبی کریم ﷺ کا انجان اعرابی سے حسن سلوک کہ اس کا حق لینے اسلام کے سب سے بڑے دشمن کے دروازے پر پہنچ گئے۔ سبحان اللہ!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں