اگر چھوٹی عمر کے لڑکوں کے خصیوں میں ورم ہوجائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ انہیں ہرنیا کی شکایت ہے۔ اس قسم کی صورتحال میں دیر کرنا بھی بچے کو کسی بڑی مصیبت میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ بچے کو فوری طور پر معالج کے پاس لے جائیں اور اس کا باقاعدہ علاج کروائیں۔
یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اس کائنات پر بسنے والے تمام جانداروں میں انسان کا بچہ سب سے زیادہ توجہ‘ محبت‘ محنت اور احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے۔ اسے طویل عرصہ تک مکمل طور پر والدین کے رحم و کرم پر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ باشعور‘ سمجھدار اور پڑھے لکھے ماں باپ‘ بچے کے ان بنیادی تقاضوں سے اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے بچے کو کب، کس چیز کی ضرورت ہے؟ وہ اس بات سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ بچوں کی مثال آنگن میں مہکتے پھولوں کی سی ہے جن کی خوشبو سے پورا گھر معطر اور شاداب رہتا ہے۔ ان کےنازک وجود ذرا سی تکلیف میں مرجھا جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سمجھدار والدین اپنے بچوں کی صحت‘ تعلیم و تربیت اور پرورش کے دیگر تقاضوں اور ضروریات کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور بلاشبہ انہیں حساس ہونا بھی چاہیے‘ اس لیے کہ بچے بڑوں کی طرح اپنی بیماری یا تکلیف کے بارے میں دوسروں کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ اس طرح ان کی تکلیف زیادہ تشویشناک ہوتی ہے۔ حساس والدین بچے کو بہت معمولی سی تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتے اور اسے فوری طور پر معالج کے پاس لے جاتے ہیں لیکن یہاں ایسے والدین کی بھی کمی نہیں جو بچوں کے معاملات سے بے پرواہ وہ غافل ہوتے ہیں۔ انہیں بچوں کی نازک اور تشویشناک صورتحال کا اندازہ نہیں ہوپاتا۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ان کی یہ غفلت اور لاپرواہی ان کے بچے کی جان بھی لے سکتی ہے۔ آئیے! ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ کون سے حالات ہیں جن میں بچے کو ہسپتال لے جانا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے ورنہ غفلت کی صورت میں بچے کی زندگی داؤ پر بھی لگ سکتی ہے۔
کسی چیز کا سانس کی نالی میں پھنس جانا
بعض اوقات بچے کے منہ سے غذایا کوئی اور چیز پھسل کر سانس کی کی نالی میں چلی جاتی ہے اور بچے کوسانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال بچے کیلئے انتہائی تشویشناک ہوتی ہے۔ اب سوال یہ والدین کو کیسے اندازہ ہو کہ بچے کی سانس کی نالی میں کوئی چیز پھنس گئی ہے۔ سانس کی نالی میں کسی چیز کے پھنس جانے کی علامت یہ ہے کہ بچے کا سانس گھٹنے لگتا ہے۔ وقتی طور پر اس کی سانس رک جاتی ہے اور اسے مسلسل کھانسی شروع ہوجاتی ہے۔ا گر غذا کا کوئی معمولی ٹکڑا سانس کی نالی میں پھنس جاتا ہے تو وہ عموماً کھانسی کے دوران ہی باہر آجاتا ہے لیکن اگر کھانسی سے کوئی چیز باہر نہ آئے اور بچے کی سانس میں خرخراہٹ پیدا ہوجائے یا اسے بخار ہوجائے تو اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ سانس کی نالی میں پھنسی چیز پھیپھڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ ان حالات میں والدین پر لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ کسی قسم کی تاخیر کیے بغیر بچے کو ہسپتال لے جائیں۔ تفصیلی معائنے اور ایکسرے وغیرہ سے اس بات کی توثیق ہوجاتی ہے کہ کوئی چیز پھیپھڑوں میں گئی ہے یا سانس کی نالی میں اٹکی ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں بچے کو بے ہوش کرکے اس کی سانس کی نالی کا ’’برونکس اسکوپک‘‘ معائنہ کیا جاتاہے۔ ایک آلہ جسے ’’برونکس کوپ‘‘ کہا جاتا ہے بچے کے منہ کے ذریعے سانس کی نالی میں ڈالا جاتا ہے اور پھنسی ہوئی چیز کو باہر نکال لیا جاتا ہے اور اس طرح بچہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جاتا ہے۔
ہمارے ہاں چھالیہ کا استعمال اس کا استعمال اس قسم کے واقعات کا اکثر سبب بنتا ہے‘ ایمرجنسی روم میں متعدد بچے لائے جاتے ہیں جن کے پھیپھڑوں یا سانس کی نالی میں چھالیہ پھنسی ہوتی ہے جبکہ ایسے بچے بھی دیکھے گئے ہیں جو ہسپتال لانے سے قبل ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ عموماً ان بچوں کی عمریں دو سے پانچ سال کے درمیان ہوتی ہیں ۔ دراصل چھالیہ سانس کی نالی میں پہنچنے کے بعد بہت عرصہ تک اپنی اصل شکل میں برقرار رکھتی ہے اور نمونیا یا پھیپھڑوں کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا کوشش کریں کہ کمسن بچوں کو چھالیہ یا اس قسم کی چیزیں استعمال کرنے سے دور رکھا جائے۔
زہریلی اشیاء کھالینا
بچوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جو بھی چیز ان کے ہاتھ میں آئے وہ منہ میں ڈال لیتے ہیں اس طرح ممکن ہے کہ وہ کوئی ایسی دوا یا چیز کھالیں جو زہریلی قسم کی ہو۔ اس سے ان کی غذائی نالی زخمی ہونے کے علاوہ معدہ میں بھی زہریلے اثرات پھیل سکتے ہیں۔ بعض والدین ایسے موقع پر بچوں کو دودھ وغیرہ پلا کر زہریلی چیز کے اثرات کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ قطعی غلط ہے۔والدین کو چاہیے کہ اس قسم کی صورتحال میں بچے کو فوری طور پر ہسپتال لے جائیں۔ ادویات اور زنگ آلود چیزیں بچوں کی پہنچ سے دو رکھیں۔
پیٹ کا شدید درد
بچوں کے پیٹ میں چھوٹا موٹا درد ہونا معمول کی بات ہے جو گھریلو ادویات اور دیسی ٹوٹکوں سے ہی دور ہوجاتا ہے۔ لیکن بعض صورتوں میں چار سے چودہ سال کے بچوں کو آنت میں سوزش اور ورم کی شکایت ہوجاتی ہے۔ اس قسم کے درد کو کسی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عموماً والدین اس درد کو بھی معمول کا درد سمجھنے لگتے ہیں جو آگے چل کرپیچیدگی کا باعث بن جاتا ہے۔ لہٰذا ایسے دوران والدین کو چاہیے کہ بچے کو فوری طور پر معالج کے پاس لے جائیں‘ تاخیر کی صورت میں انفیکشن پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ہرنیا کی تکلیف
اگر چھوٹی عمر کے لڑکوں کے خصیوں میں ورم ہوجائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ انہیں ہرنیا کی شکایت ہے۔ اس قسم کی صورتحال میں دیر کرنا بھی بچے کو کسی بڑی مصیبت میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ بچے کو فوری طور پر معالج کے پاس لے جائیں اور اس کا باقاعدہ علاج کروائیں۔
ہیضہ کی شکایت
ہمارے ہاں بچوں میں ہیضے کا مرض بہت عام ہے۔ اس کا بڑا سبب غذا اور پانی میں جراثیم کی شمولیت ہوتی ہے۔ اگر ہیضے کے دوران الٹیاں بھی آرہی ہوں تو جسم میں پانی کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں بچہ پیشاب بہت کم کرتا ہے اور اس کا رنگ بھی زرد پڑجاتا ہے۔ آنکھیں اندر کو دھنس جاتی ہیں۔ شدید نقاہت اور کمزوری بچے کو گھیر لیتی ہے۔ ان حالات میں اسے گھر پر رکھنا انتہائی خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اکثر بچے ہیضہ سے ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں بچے کو ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر معالج کے پاس لےجائیں۔
جل جانا
بچے گھروں میں گرم دودھ‘ چائے یا پانی وغیرہ سے اکثر چھوٹے موٹے جلتے رہتے ہیں
اور زیادہ تر ان کا علاج گھر میں پڑی ادویات یا ٹوٹکوں سے ہی ہوجاتا ہے لیکن اگر بچہ زیادہ جل جائے اور جلے ہوئے حصے پر چھالے پڑجائیں توبچے کو معالج کے پاس لے جانا ضروری ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر اگر بچے کے جسم کا دس فیصد حصہ جل جائے تو اسے ہسپتال لے جانے میں تاخیر نہ کریں کیونکہ اس دوران شدید تکلیف محسوس کرتا ہے۔ دس فیصد حصہ ایک بازو کے برابر ہوتا ہے۔ہڈی کا ٹوٹنا:یوں تو بچے اکثر بھاگتے دوڑتے گرتے رہتے ہیں اور انہیں چھوٹی موٹی چوٹیں بھی لگتی رہتی ہیں لیکن یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں لیکن اگر بچہ اس طرح گرے کہ اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے یا اس میں بال پڑجائے تو بچے کو ہسپتال لے جانا ضروری ہے۔ ہڈی ٹوٹنے یا اس میں بال پڑجانے کی صورت میں متاثرہ جگہ پر ورم ہوجاتا ہے اور اس قسم کی چوٹ لگے عضو کو بچہ استعمال کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ متٓاثرہ جگہ اگر کسی چیز سے ٹکرائے تو شدید درد ہوتا ہے۔ بچہ نقاہت اور کمزوری محسوس کرتا ہے اور غنودگی کی کیفیت میں رہنے لگتا ہے اگر اس قسم کی علامات ہوں تو بچے کو ہسپتال لے جانے میں تاخیر نہ کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں