پیر 27 اکتوبر2008ءمیری زندگی کا ایک اہم دن ہے، جسے تا عمر فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ شام تقریباً پونے چار بجے کا وقت تھا اور میں اپنے کچھ تحقیقی کام کیلئے پیدل لائبریری پہنچا تھا۔ لائبریری کھلنے کا وقت شام چار بجے سے آٹھ بجے تک تھا۔ کراچی شہر میں بہادر آباد بہت معروف جگہ ہے اور بہادر آباد چورنگی سے متصل علاقہ شرف آباد کہلاتا ہے۔ یہاں شرف آباد کلب ہے اور پہلی منزل پر ایک بڑی لائبریری ہے جسے اہل علم اور علم کے متوالے بیدل لائبریری کے نام سے جانتے ہیں۔
متذکرہ کتب خانہ نادر و نایاب کتب کے ساتھ ساتھ قدیم و جدید رسائل کا خزانہ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ ایسے ہی نادرونایاب رسائل سے استفادہ کی لگن احقر کو کتب خانے تک لے گئی۔ کلب کا دروازہ چند فٹ کے فاصلے پر بالکل سامنے تھا یعنی اگلے ہی منٹ میں بندہ لائبریری میں ہوتا کہ اچانک دروازے اور میرے درمیان ایک موٹرسائیکل حائل ہوگئی۔ہیلمٹلگائے ایک نوجوان موٹرسائیکل سوار مجھ سے انگریزی میں مخاطب ہوا اور ایک عمارت کا پتا پوچھنے لگا۔ میں نے اسے بتایا ”میں تو خود مسافر ہوں اور لوگوں سے پوچھتے پوچھتے بیدل لائبریری تک پہنچا ہوں۔“ ”انکل! میں صبح سے پریشان ہو رہا ہوں مگر یہ پتا نہیں مل رہا۔“ اس نے کہا۔ ”اگر آپ کے پاس ان کا فون نمبر ہو تو فون پر رابطہ کر لیں۔ ”میں نے انہیں مشورہ دیتے ہوئے کہا اور وہ پریشانی ظاہر کرتے ہوئے بولا۔ ”بڑی مشکل سے ایک گھنٹہ پہلے رابطہ ہوا تھا۔ اسی علاقے کی نشان دہی کی تھی مگر ایک گھنٹہ گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ پتا نہیں مل رہا۔“ میں نے پھر وضاحت کی۔ ”بھائی! میں تو یہاں پر مسافر ہوں۔ دیکھئے وہ سامنے ایک دو دکانیں ہیں۔ ان دکان والوں سے معلوم کر لیں۔ یقینا یہ آپ کی مدد فرمائیں گے۔“
”ارے انکل! یہاں کراچی میں کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا۔“ وہ جیسے اہل کراچی سے بہت مایوس تھا۔ میں مسکرایا۔
”مگر بھائی! مجھے تو لوگوں نے یہاں تک پہنچنے میں بڑی مدد کی ہے۔ آئیے میں آپ کو معلوم کر دوں۔“ میں دکانوں کی طرف مڑا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور قریب کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے ہیلمٹ اتار اور مسکراتے ہوئے بولا۔
”انکل! آپ کچھ زیادہ شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کو کسی نے لائبریری کا پتا غلط بتایا ہے۔ یہ لائبریری کا دروازہ نہیں ہے۔ لائبریری کا دروازہ برابر والی گلی میں ہے ۔آپ وہاں سے جائیں، آئیں میںآپ کو دروازہ دکھاتا ہوں۔“ مگر میں نے وضاحت کی کہ ایک باریش شخص نے یہ پتا بتایا ہے اس لیے یقینا غلط نہیں ہو سکتا اور پھر اوپر عمارت پر ”بیدل لائبریری“ کا بورڈ بھی لگا ہوا نظر آ رہا ہے۔“ اس نے کہا عمارت تو یہی ہے مگر لائبریری کا دروازہ گلی میں ہے۔ میں نے کہا۔ ”ایک بزرگ نے یہ پتا بتایا ہے لہٰذا مجھے یقین ہے کہ یہ غلط نہ ہوگا۔ میں اندر جا کر دیکھ لیتا ہوں۔ اگر اوپر جانے کا راستہ نہ ملا تو میں آپ کے بتائے ہوئے راستے پر گلی والے دروازے پر چلا جاﺅں گا۔ رہنمائی کے لیے آپ کا بھی بہت بہت شکریہ۔“
وہ میری باتیں سن کر مسکرایا اور بولا۔ ”مجھے غور سے دیکھو.... میرا نام اختر بلوچ ہے اور میں اس علاقے کا ڈکیت ہوں۔ یہاں دن رات جتنی بھی وارداتیں ہوتی ہیں وہ ہم ہی کرتے ہیں۔ مجھے کسی بلڈنگ کا پتا نہیں پوچھنا....“ وہ بولے جا رہا تھا اور میں خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آج تک تو ایسی وارداتوں کی خبریں ہی سنتے تھے مگر آج تو لگتا ہے کہ میں بھی خبر ہی بن جاﺅں گا۔ وہ ہنستے مسکراتے مجھ سے ایسے باتیں کر رہا تھا جیسے میرا جاننے والا ہے۔ اس نے اپنی قمیض کا دامن اٹھایا اور دائیں بائیں لگے اسلحے کی طرف اشارہ کر کے بولا۔ ”یہ دیکھ رہے ہیں نا آپ....“ میں نے کہا۔ ”جی ہاں! بالکل دیکھ رہا ہوں۔“ پھر اس نے ہنستے ہوئے کہا: ”شلوار کی جیب سے لے کر جہاں جہاں جو کچھ ہوتا ہے ہمیں سب پتا ہوتا ہے۔“ اس نے بات کرتے کرتے میری قمیض کے سامنے والی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب میں موجود موبائل، کیش، ٹیلی فون ڈائریکٹری اور دیگر اشیاءاپنے ہاتھ میں پکڑ لیں۔ میں نے بایاں ہاتھ جیب پر رکھا اور روکنے کی کوشش کی۔ اس نے دوسرے ہاتھ سے اپنی قمیض کا دامن اٹھایا اور اسلحے کی طرف اشارہ کیا۔ ”یہ دیکھ رہے ہیں....؟“ ہم جب کچھ لینا چاہتے ہیں تو....“ میں نے اپنی گرفت ڈھیلی چھوڑ دی اور اس نے سب کچھ نکال لیا اور بولا۔ ”انکل! آپ کہاں سے آئے ہیں؟“ جب میں نے بتایا کہ حیدر آباد سے تو وہ ذرا زور سے ہنسا۔ ”وہاں تو لطیف آباد نمبر 8 میں میرا سسرال بھی ہے۔“ وہ اپنی بات کہہ رہا تھا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اس نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ اللہ خیر کرے اب یہ اگلا قدم کیا اٹھائے گا۔“ ابھی تقریباً تیس سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ اس کے چہرے کی ہنسی اچانک غائب ہوگئی۔ وہ بہت سنجیدہ ہوگیا۔ ”انکل میں آپ کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ویسے تو رات دن ہمارا کام ہی چوری ڈاکہ ہے اور اسی مال سے ہماری زندگی گزر رہی ہے لیکن انکل! پتا نہیں کیوں میرا دل نہیں چاہ رہا کہ آپ کا یہ مال اپنے پاس رکھوں۔ انکل! یہ تم ہی استعمال کرو....“ بات کرتے ہوئے اس کی نظریں میری جیب سے نکالی گئی اشیاءپر تھیں اور پھر اچانک اس نے وہ سب چیزیں (جو اب تک اس کے ہاتھ ہی میں تھیں) اپنے ہاتھ سے میری جیب میں ٹھونس دیں اور مسکراتے ہوئے ہیلمٹ پہنا، موٹرسائیکل اسٹارٹ کی اور ”اچھا انکل! زندگی رہی تو پھر ملاقات ہوگی.... خدا حافظ“ کہہ کر رخصت ہو گیا۔ وہ اجنبی نوجوان تو چلا گیا مگر میں آدھ گھنٹے تک پریشان رہا۔ کتب خانے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیسے کیسے کڑیل جوان چوری اور ڈکیتی ایسی وارداتوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ جانے کیسے حالات اور کیسے معاملات ہیں کہ یہ ان برائیوں کا شکار ہو گئے ہیں اور وقت رخصتی کا وہ سنجیدہ اور پیارا انداز دل میں اس یقین کو پختہ کر رہا تھا کہ یقینا لمحے بھر میں دل کو اس طرح پھیر دینا صرف اور صرف اللہ عزوجل ہی کا کام ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جو دل کو اتنی جلدی پھیر دے۔ کُن فَیَکُونُ کی طاقت اس کی ہے اور بلاشبہ وہی ہے جو غیب سے مدد کرنے والا ہے۔ میں بے عمل و گناہ گار بھلا کہاں اس مدد کا مستحق تھا۔ بس پروردگار عالم نے اپنا خاص کرم اور رحم فرمایا۔ یہ اسی کا خاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس نوجوان، ایسے بے شمار نوجوانوں اور سب مسلمانوں پر اپنا خاص کرم اور رحم فرمائے۔ (آمین)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں