ہمیشہ والدہ کو ذلیل‘ بے عزت اور پریشان دیکھا
ایک شخص نے اپنی خوشحالی‘ دولت‘ عزت ‘شان و شوکت کا ایک انوکھا تجربہ اور واقعہ بتایا۔ کہنے لگے: میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں میرے والد کے مزاج میں سختی ‘تلخی اور جبر تھا۔ ساری عمر میں نے اپنی والدہ کو ذلیل‘ بے عزت اور پریشان دیکھا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں والدہ کی کیا مدد کرسکوں لیکن چھوٹا تھا پھر والد اکیلے نہیں تھے‘ ان کے ساتھ ان کی بہنیں بھی تھیں اور ان کے بھائی کی بیوی بھی تھی۔ ظلم وستم کی یہ کالی رات میں اپنے بچپن سے جوانی تک دیکھتا رہا اور والدہ کودن رات پستا اور ذلیل ہوتادیکھتا رہا۔ میرے دل میں ان لوگوں کے لیے نفرت اورآخری درجہ کی نفرت حتیٰ کہ والد بھی اسی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے۔
مجھے نہ کوئی مقام ملا ‘نہ کوئی وقار ملا
میرے حالات خراب تھے‘ میرے ساتھ والے کہاں سے کہاں نکل گئے؟ کوئی کس مقام پر‘ کوئی کس کاروبار پر‘ کوئی کس عہدہ پر‘ مگر مجھے نہ کوئی مقام ملا ‘نہ کوئی وقار ملا‘ نہ کوئی عہدہ ملا۔ میں جگہ جگہ دھکے کھاتا رہا لیکن مجھے کہیں سے کوئی منزل ملی نہ کوئی راستہ ملا۔ اس طرح میری زندگی کے 33 سال گزر گئے۔ والدین بہت بوڑھے ہوگئے تھے لیکن والد کےبوڑھے ہونے کے بعد بھی ان کے دل میں نرمی اور محبت تو نہ آئی بلکہ سختی ‘ڈانٹ اور نفرت‘ ماں کیلئے میرے لیے حتیٰ کہ ان کے مزاج میں تو معاشرے کا ہرفرد چور ہے‘ دھوکہ باز ہے اور صرف نیک شریف اور امانت دار وہی ہیں۔ مجھے ایک احساس تھا کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاؤں اور میں اپنے والدین کے لیے کچھ کرکے دکھاؤں اور اپنے بڑوں کو کچھ حاصل کرکے دکھاؤں۔ میری یہی سوچ اور یہی جذبہ تھا لیکن راہیں بند‘ راستے بند‘ منزلیں ہاتھ سے چھو کر دور نکل جاتی تھیں۔ میں کچھ حاصل کرنا چاہتا بھی تھا تو نہیں کرسکتا تھا۔ بس یہی کشمکش تھی جس میں میرے دن رات گزر رہے تھے۔ میرے دل میں بھی معاشرے کے لیے نفرت‘ رشتہ داروں اور والد کے لیے انتقام‘ کینہ بڑھتا جارہا تھا۔
آپ کبھی بھی ترقی عزت‘ کامیابی نہیں پاسکیں گے
شاید وہ میری قسمت کا کوئی مبارک دن تھا اور میرے مقدر کا اچھا لمحہ تھا‘ ایک دفعہ میں جمعہ کی نماز پڑھنے ایک مسجد میں گیا تو وہاں مسجد کے امام صاحب موضوع بیان کررہے تھے کہ اگر آپ کا دل لوگوں کی نفرت کے لیے‘ انتقام اور کینہ سے ہروقت بھرا رہتا ہے اور نفرتیں‘ کینہ ہر پل دلوں میں ہوتا ہے تو آپ کبھی بھی ترقی‘ عزت‘ کامیابی نہیں پاسکیں گے اور آپ کی راہیں بند رہیں گی۔ آپ کے راستے ختم ہوجائیں گے‘ ہر گلی بند‘ منزل قریب آکر دور ہوجائے گی۔ انہوں نے اس کی دلیل یہ دی کہ دل صرف نور ہی رکھنے کی جگہ ہے‘ انتقام‘ کینہ‘ نفرت جس دل میں آئے گی اس دل میں نور نہیں آئے گا۔ زندگی میں سکون‘ چین اور سچی راہیں صرف نور سے ملتی ہیں اور کسی چیز سے نہیں ملتیں‘ جس دل میں نور نہیں ہوتا وہ راہیں اور وہ راستے بند ہوتے ہیں اور انہیں منزلیں نہیں ملتیں۔ شاید وہ سارا خطاب میرے لیے تھا‘ میں بہت پریشان ہوا۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے سب لوگوں کو معاف کیا اور سب سے معافی مانگی اور فیصلہ کیا کہ اب آئندہ میں کبھی بھی اپنی زندگی میں نفرت کو جگہ نہیں دوں گا بلکہ محبت‘ مروت‘ درگزر‘ رواداری کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ میں نے اپنے والد اور ان کے رشتہ داروں کو معاف کیا۔ اپنا رویہ‘ اپنا لہجہ بدلہ‘ جذبہ اور سوچیں بدلیں۔
آج میں دنیا کا ایک خوشحال انسان ہوں
آپ یقین جانیے بس میں نے اپنے اندر کو بدلااور نظام عالم میرے لیے ایک پل میں بدلنا شروع ہوگیا اور میں بہت مسرور ہوا‘ مطمئن ہوا کہ مجھے اتنی خوشی ملی‘ اتنی راحت ملی‘ میرے گمان‘ خیال اور سوچ سے بالاتر۔ آج میں دنیا کا ایک خوشحال انسان ہوں‘ خوش قسمت اپنے آپ کو تصورکرتا ہوں‘ بند راستے کھل رہے ہیں‘ منزلیں مل رہی ہیں‘ قسمت اور مقدر کا دھنی ہوں‘ حالات بدلے ہیں‘ منزلیں قریب آئی ہیں‘ مشکلات دور ہوئیں ہیں اور میرے پل پل میں خوشیاں‘ خوشحالی اور راحتیں ملی ہیں۔ میں سب کو ایک پیغام دیتا ہوں‘ اپنے من تن کو اپنے جذبے اور دل کو سب کے لیے پاک اور صاف کردیں اور سب کے لیے مزین اور منور کردیں۔ ادھر آپ دل کو پاک اور صاف کریں گے‘ ادھر آپ کے مسائل حل مشکلات دور‘ پریشانیاں دور اور ناکامیاں سوفیصد ختم ہوجائیں گی۔ آئیں آزمائیں! جلدی نہ کریں‘ کچھ عرصہ ہمت حوصلہ سے چلیں تو سہی۔ ناکامیاں دور اورکامیابیاں آپ کا انتظار کررہی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں