ہفتہ وار درس سے اقتباس
امید اور خوف
میرے محترم ساتھیو!مو من امید اور خوف کے درمیان رہتا ہے۔”المُومِنُ بَین الخَوفِ وَالرَّجاَئِ “ امید اس بات کی کہ اللہ بڑا کریم ہے۔ غفور الرحیم ہے۔ سَتَّارُ العُیوب ہے، غَفَّارُ الذُّنُوب ہے۔ معاف کر دے گا۔ امید یہ ہے کہ روز جزا جب کہ ہر وقت، ہرپل پریشانی ہو گی ۔ میرے اعمال ترازو میں تلیں گے تو اللہ اپنی غفور الرحیم والی صفت اختیار فرمائیں گے۔ میرے اچھے اعمال کا وزن بڑھ جائے گا ۔میرا رب کریم ہے اور جب میں پل صراط سے گزروں گا تو کٹ مرنے اور گرنے سے اللہ خود ہی بچائے گا اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچائے گا۔ اللہ کی سب سے بڑی صفت کریم ہے۔ کریم کسے کہتے ہیں ؟جرم کیا جائے ،نا فرمانی کی جائے اور کھلے بندوں ڈٹ کر کی جائے۔ نافرمانی کہہ لیں یا جرم کہہ لیں اور پھر جرم کے بعد مقابلے پر آجائے اور مقابلہ کیا جائے اور مقابلے کے بعد پھر پکڑا جائے اور اب فریق ثانی کو بدلہ لینے کا بھر پور اختیار ہے۔ جس کا یہ مقابلہ کر رہا تھا اُس نے اِس کو پکڑ لیااور وہ اس سے بھر پور بدلہ لے سکتا ہے اور اس کو اختیار بھی ہے مگر اس سب کے باوجود کہتا ہے جا میں نے تجھے معاف کیا۔ اس کو کریم کہتے ہیں ۔ صفت کریم کی میں نے جو تعریف کی ہے یہ اللہ کی شان کریمی کے مطابق نہیں ہے۔ وہ اس سے بھی بڑا کریم ہے۔ جس طرح اللہ کریم ہے اسی طرح اللہ کا حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کریم ہے۔ فتح مکہ پر گھر چھڑا نے والے، بیٹیوں کو طلاقیں دینے والے، (نبوت سے پہلے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ کا عتبہ اور عتیبہ جو کہ ابو لہب کے بیٹے تھے کے ساتھ نکاح ہوا تھا۔ جب سورہ لہب نازل ہوئی تو انہوں نے کعبہ کے اندر آکر سب کے سامنے طلاق دے دی)دو بیٹیوں کو جب ایک ساتھ طلاق ہو جائے توبندے کی کیفیت کیا ہوتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ المکرمہ سے نکالنے والوں کو اور ہر طرح کے الزام لگانے والوںکو معاف کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فاتح بن کر جب مکہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سیاہ پگڑی بندھی ہوئی تھی جبکہ عام حالات میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم سفید پگڑی باندھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر جھکا ہوا تھا جبکہ فاتح کا سر تنا ہوا ہوتا ہے اور مفتوح کا سر جھکا ہوا ہوتا ہے لیکن سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا سر جھکا ہوا تھا۔محدثین فرماتے ہیں اورکتابوں میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک اتنا جھکا ہوا تھا کہ اونٹنی کی کوہان سے لگ رہا تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ہر شخص لر زہ بر اندام تھا اور کہتا تھا کہ میں نے تویوں ستایا تھا میں نے یوں ستایا تھا، لیکن سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان فرمایا کہ جو گھر کا دروازہ بند کر لے، جو ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر چلا جائے، جو کعبہ میں آجائے اور بچوں ، بوڑھوں کیلئے عام معافی کا اعلان ہے۔ اسے کہتے ہیں کریمی۔ بات ہو رہی تھی کہ مومن دو کیفیتوں کے درمیان رہتا ہے، خوف اور رجائ۔ رجاءامید کو کہتے ہیں۔امید تو پہلے بیان ہو چکی مگر خوف یہ ہے کہ سارے جہاں کو اگر اللہ نے بخش دیا تو میں واحد ہوں گا جس کو سزا ملے گی کیونکہ میرے جرم سب سے زیادہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے خوف و رجاءکے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ سارے جہاں کے بارے میں اعلان ہو جائے کہ سارے جہاں کی معافی ہو جائے گی اور ایک شخص ایسا ہے جس کی معافی ممکن نہیں ہے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ میں ہوں گا اور سارے جہاں کے بارے میں اعلان ہو جائے کہ سارے جہاں کی معافی نہیں ہو گی صرف ایک شخص کی ہو گی تو مجھے امید ہے کہ وہ بھی میں ہوں گا ۔
جنت میں جنتی کی حسرت
اللہ سے امید اتنی ہے کہ اس کے علاوہ کہیں امید کا کوئی سلسلہ نہیں ہے اور اپنے بارے میں خوف اتنا ہے کہ ہائے! میرا کیا بنے گا؟ ایک بزرگ ہر نماز کے بعد دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیتے تھے ۔کسی نے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا! مجھے خبر نہیں ہے کہ کہیں میری نماز میرے منہ پر نہ مار دی گئی ہو۔ ہر عمل کے بارے میں یہی کیفیت ہو کہ نا معلوم میرا کونسا عمل میرے منہ پر نہ مار دیا جائے۔ مومن نیکی اور گناہ دونوں کرکے ڈرتا ہے۔ غلطی مومن سے بھی ہو سکتی ہے۔ خطا مومن سے بھی ہو سکتی ہے ۔مومن نیکی کر کے بھی ڈرتا ہے۔وہ التجا کرتا ہے کہ الٰہی میں اس قابل نہیں۔ کہیں میں نیکی کرتے کرتے گناہ نہ کر بیٹھوں۔ حضرت رابعہ بصریہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتی تھیں الٰہی! میرے استغفار کو بھی استغفار کی اور میری توبہ کو بھی توبہ کی ضرورت ہے۔ مومن عمل کر کے ڈرتا ہے، خوف کھاتا ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ مومن کے اندر حسرت ہوتی ہے۔ یاد رکھیںایک خوف ہوتا ہے اور دوسری حسرت! یہ حسرت موت تک باقی رہتی ہے۔ خوف اس چیز کا کہ میں نیکی تھوڑی کر سکااور حسرت یہ کہ اللہ کے ساتھ تعلق اور محبت تھوڑا کر سکا، میں اور نیکی کرتا اور اللہ سے تعلق کو بڑھاتا۔ جنت میں جنتی کو بھی حسرت ہو گی اور جہنم میںجہنمی کو بھی حسرت ہو گی۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ جو جہنم میں جانے والا ہے اس کو تو حسرت ہونی چاہیے لیکن جو جنت میں جانے والا ہے اس کو حسرت کیوں ہو گی ؟ فرمایا !جہنمی کو حسرت ہو گی کہ اے کاش! میں کچھ اعمال کر لیتا ،اللہ کو منا لیتا، اللہ سے تعلق پیدا کر لیتا، اللہ کی محبت میں دن رات گزار لیتااور جنتی کو یہ حسرت ہو گی کہ اے کاش !میں اور نیکی کر لیتا کہ مقامات اور بلند ہو تے، اعمال اور کر لیتاکہ اللہ کی محبت کے درجات اور بلند ہوتے، گناہوں سے اور بچ جاتا، زیادہ نیکی کر لیتا اور اپنے جسم پر زیادہ مجاہدہ کر لیتا تاکہ اللہ مجھے اور زیادہ عطا کرتا۔ یہ حسرت جنتی کو بھی ہو گی اور جنتی کو ایک اور حسرت ہو گی اور وہ کیا؟ آدمی کو سب سے زیادہ جو تکلیف ہوتی ہے وہ اس کا جسم کاٹنے سے ہوتی ہے ۔ اسکے جسم پر سوئی چبھونے سے ہوتی ہے اور انسان ساری زندگی اس جسم کو ہی بچاتا رہتا ہے۔ کبھی دھوپ سے ،کبھی چھائوں سے، کبھی بلٹ پروف گاڑی کے ذریعے سے، کبھی گرمی سے، کبھی سردی سے، کبھی اوڑھنے سے، کبھی بچھونے سے، مکان بنانے کا مقصد جسم بچانا، کھانا کھانے کا مقصد جسم بچانا، لباس پہننے کا مقصد جسم بچانا، جوتے کا مقصد جسم بچانا، اعلیٰ پوشاک، نرم بستر، ان سب کا مقصود جسم بچانا ہے۔ گرمیوں میں ٹھنڈک اور سردیوں میں گرمی کا انتظام کرتا ہے۔انسان اس جسم کو بچانے کیلئے سارے کے سارے انتظام موت کے آخری لمحے تک کرتا رہتا ہے لیکن اس کا جسم پھر بھی نہیں بچتا۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں