قارئین! کبھی آپ نے کوئی ایسا شہر دیکھا اور اس شہر میں بسنے والے ایسے باشندے دیکھے جن میں اتنی عظیم صفات ہوں‘ آئیں بیٹھ کر ہم اپنا اور اپنی مزاجوں کا موازنہ کریں کہ ہم کس ترتیب اور طبیعت کے ساتھ اپنے دن رات گزار رہے ہیں۔ وہ لوگ صفائی پسند ہیں‘ دل بالکل صاف‘کسی کے بارے میں کینہ‘ بغض‘ حسد‘ جادو‘ نہیں ہے۔ موٹرسائیکل لائے‘ گھر کے سامنے کھڑی کی‘ چابی اس کے اندرموجود ہے۔ کوئی پریشانی نہیں کہ کوئی چوری کرکے لے جائے گا کیونکہ وہاں جان، مال، عزت، آبرو اولاد اور عورت محفوظ ہے۔ کسی کی موت کا حال یہ ہے کہ وہ میت گھر کی نہیں ہوتی بلکہ پورے محلے کی ، اس کی تجہیز وتکفین، تدفین یعنی کفن، غسل اور قبر یہ سب مل جل کر کرتے ہیں‘ سارے اس دکھ میں شامل ہوتے ہیں اور جنازہ میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ بلی‘ کتے اور چوزےاور مرغیاں اکٹھے دیکھے‘ ایک دوسرے پر کوئی حملہ نہیں کررہا تھا اور سب مطمئن اپنی زندگی بسر کررہے اور غذا تلاش کررہے۔اگر ہم علاج کی دنیا میں جاتے ہیں تو اس نگری میں ٹھنڈے پانی سے علاج کیا جاتا ہے‘ گرم پانی سے علاج کیا جاتا ہے‘ ٹھنڈی چائے سے علاج کیا جاتا ہے۔ دبانے سے علاج‘ حجامہ سے علاج‘ مالش سے علاج‘ وہ لوگ ورزش کرتے ہیں‘ سادہ غذائیں کھاتے ہیں‘ دوپہر کو قیلولہ کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے ہسپتال خالی ہیں۔ بچے مسجدوں میں شور کرتے ہیں کوئی ایک لفظ ڈانٹ ڈپٹ کا انہیں نہیںکہتا کیونکہ انہیںپتہ ہے آج انہیں اگر روکا تو ان سے مسجد کی شناسائی اور تعارف چھوٹ جائے گا اور کل کو یہی لوگ مسجد کا رخ نہیں کریں گے۔ ویسے بھی مسجد میں صرف اس بچے کیلئے ممانعت ہے جو اپنے پیشاب پر اختیار نہ رکھتا ہو۔ باشعور بچہ مسجد میں ضرور آئےاور سیرت کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں کہ مسجد نبویﷺ شریف میں حضور ﷺ کے دور میں بچے آتے تھے‘ ان سے محبت ہوتی تھی اور ڈانٹ ڈپٹ نہیں ہوتی تھی اور آج کل کے پیمپر نے جو کہ پیشاب پاخانہ کو روک لیتا ہے بچوں کا مسجد میں آنا مزید آسان کردیا ہے۔(مزید تفصیل کیلئے مقامی علماء سے رابطہ فرمائیں)ایک چیز کا مشاہدہ کیا‘ دکانیں کھلی ہیں‘ تالا نہیں‘ موبائل پڑے ہیں‘ چوری نہیں نہ کوئی خطرہ‘ نہ کوئی چور‘ نہ ڈکیتی نہ ڈاکو۔ ایک خاندان کو دیکھا بچے اور بیوی جنگل میں اکیلے ہیں تین چار کلو میٹر دور تک کوئی آبادی نہیں۔ عورت اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی ہے اور خاوند فوت ہوگیا‘ بیوگی کی زندگی گزار رہی لیکن بالکل مطمئن ہے۔ہم نے ایک سات منزلہ بحری جہاز پر سفر کیا، ایک منزل سے دوسری منزل پر جانا تھا‘ فاصلہ کافی زیادہ تھا‘ پورے جہاز میں کوئی گن مین‘ سکیورٹی‘ جگہ جگہ چیکنگ، آلے، بالکل نہیں۔ چھاؤنی کے آگے کوئی گن مین‘ تھانے کے سامنے کوئی گن مین نہیں‘ جیولرز کی دکان کے سامنے کوئی سکیورٹی نہیں۔سنٹرل جیل میں پانچ سو قیدی کوئی گن مین نہیں۔ وہ لوگ اپنی غذاؤں میں میٹھی چیزیں بہت کم کھاتے ہیں‘ مٹھائی کی دکان نہیں ۔ کیونکہ جس معاشرے میں میٹھے کا رواج زیادہ ہوگا اس معاشرے میں جرائم‘کرائم‘ غصہ‘ ٹینشن‘ چڑچڑا پن ناجائز شہوت جیسی برائیاں عام ہوںگی۔(یہ ایک سائنسی ریسرچ ہے)۔ ایک بحری جہاز کی اوپر کی منزل سے جہازکے شیڈ پر ایک عورت گرگئی‘ لوگ اٹھانے کیلئے دوڑے‘ کہنے لگی مجھے کوئی نہ اٹھائےآخر رسی پھینکی اپنے آپ کو اس نے اس سے لپیٹا باندھا اور نکالا۔ہم نے وہاں عجیب و غریب نعمتیں دیکھیں جو دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ 100 پھل ایسے جو پاکستان میں ہم نے نہ کبھی دیکھے نہ سنے‘ نہ کھائے۔ ان میں بیس پچیس کھائے‘ کیا مزہ کیا ذائقہ ، بیان سے باہر۔ بڑے شہروں میں صفائی کا انتظام گورنمنٹ کے ذمے ہے‘ چھوٹے شہروں‘ گاؤں اور دیہات میں صفائی ہر بندے کے اپنے ذمہ ہے۔ وہ اپنے گھر کے سامنے اور سامنے کی گلی میں صفائی خود کرے گا۔ ساتھ ہی سمندر ہے۔کھائی ہوئی چیزیں‘ چاول‘ یا دوسری غذائیں وہ کسی شکل میں سمندر میں نہیں پھینکنے دیتے تاکہ آلودگی پیدا نہ ہو۔میرے کرم فرما جو مجھے یہ سب واقعات سنا رہے تھے کہنے لگے میںپانچ ماہ وہاں رہا‘ میں نے کسی کی غیبت کسی سے نہیں سنی‘ نہ کسی کا ایک دوسرے کے بارے میں حسد‘ پورے سفر میں کہیں مجھے بھکاری نظر نہیں آیا‘ نہ کوئی لٹیرا۔ قناعت پسندی خوب سے خوب تر‘ خوب مہمان نواز‘ مجھے انہوں نے اپنا مہمان بنا لیا ‘ باہر کا کھانا اگر کھاتا تو ناراض ہوتے۔ جہاں ان میں یہ صفات تھیں وہاں ایک اور صفت قابل تعریف ہے کہ ان میں روزہ رکھنے کا یعنی پیر اور جمعرات روزہ رکھنا چونکہ سنت ہے‘ ان میں خوب اہتمام تھا۔ رمضان المبارک کا منظر تو قابل دید ہے۔ رمضان کا پہلے سے استقبال، احترام، اور بہت زیاددہ اس کیلئے محنت۔نوے فیصد افراد تہجد پڑھنے والے‘ فجر کی نماز میں رش ایسے جیسے جمعہ کی نماز کا رش۔ قارئین! یہ میں ایک نگری کا حال بیان کررہا ہوں۔ جس کاتذکرہ میرے ایک محسن نے مجھ سے کیا اور میں حیران ہوں‘دل میں آیا اس کا حال لکھ دوں۔ لیکن لکھنے میں تاخیر ہوگئی۔آپ مجھ سے پوچھیے یہ کون سا ملک ہے؟ اس ملک کا نام یمن ہے۔ جس کے بارے میں بے شمار احادیث یمن کے فضائل کے بارے میں موجود ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں