میوزیکل بینڈتو تھا ہی مزید انفرادیت کیلئے پیشہ ورناچنے والیوں کا ناچ گانا بھی رکھا گیا اور رات بھر شباب و شراب کا دور چلتا رہا۔ اس خدائی بغاوت کا وبال یہ پڑا کہ لڑکے کو کچھ عرصہ بعد ہیروئن کی چاٹ لگ گئی۔ بیوی نے خلع کا مقدمہ دائر کردیا
ایک صاحب کہنے لگے آج کل رشتوں کا بحران تو ہے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ جو رشتے ہوتے ہیں وہ محفوظ اور دیرپا نہیں رہے۔ اکثر و بیشتر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ انہوںنے مزید بتایا کہ گزشتہ چند سال میں ان کے محلہ کی آٹھ دس بچیوںکی شادیاں ہوئیں ان میں سے دو تین کے سوا سب کو طلاق ہوگی۔ حیرت کی با ت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر شادیاں قریبی رشتہ داروں میں ہوئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں میں ان ناکام شادیوں کی وجوہات تو معلوم نہ کرسکا لیکن کئی مثالوں کی روشنی میں یہ گمان رکھتا ہوں کہ جن شادیوں میں نمائش اور فضول خرچی کا مظاہرہ ہوتا ہے بے پردگی اور ناچ گانے کا کلچر اختیار کیا جاتا ہے وہاں لازمی طور پر اللہ کی ناراضگی اترتی ہے اور برکت اٹھ جاتی ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، انہوں نے بڑی بیٹی کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی اور دولہا کے مطالبہ پر برات ہلٹن ہوٹل میں ٹھہری… ڈاکٹر صاحب نے خوب دل کھول کر پیسہ بہایا، کھانے میں اس قدر ورائٹی کی کہ صرف میٹھی چیزوں کی آٹھ ڈشیں تھیں۔ ہرقسم کے گوشت تھے، انتہائی تیز روشنیوں اور کیمروں کے جلو میں دلہن اپنے خاندان کے ساتھ ہال میں داخل ہوئی، ہر طرف بے پردگی اور بدنظری کا مظاہرہ تھا۔ ایک سال بعد اچانک ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ صرف چھ ماہ بعد بڑی بیٹی کو طلاق ہوگئی تھی۔ میں نے یہ سن کر سوچا کاش میں ڈاکٹر صاحب کو بتاسکتا کہ اللہ کی تقدیر اندھی بہری نہیں بلکہ یہ انسانوں کے اچھے برے اعمال کے تناظر میں حرکت کرتی ہے۔ جو شخص جانتے بوجھتے شرعی احکام کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو اللہ کی رحمت بھی ایسے شخص سے روٹھ جاتی ہے پھر پریشانیاں اور مشکلات ایسے راستوں سے اس پر حملہ آور ہوتی ہیں کہ جن کا عام حالات میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔
ایک صاحب نے بتایا کہ پڑوس میں ایک زمیندار گھرانے نے مکان خریدا جسے وہ امیر کبیر لوگ محض ریسٹ ہائوس کے طور پر استعمال کرتے اور مہینے میں ایک آدھ بار آتے تھے۔ دوست نے بتایا کہ ان کے خاندان میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں انہوں نے بڑے بیٹے کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی، سینکڑوں لوگ برأت اور ولیمہ میں شریک ہوئے۔ میوزیکل بینڈتو تھا ہی مزید انفرادیت کیلئے پیشہ ورناچنے والیوں کا ناچ گانا بھی رکھا گیا اور رات بھر شباب و شراب کا دور چلتا رہا۔ اس خدائی بغاوت کا وبال یہ پڑا کہ لڑکے کو کچھ عرصہ بعد ہیروئن کی چاٹ لگ گئی۔ بیوی نے خلع کا مقدمہ دائر کردیا اور بڑی بیٹی کی شادی ہوئی تو اس کے دو بچے یکے بعد دیگرے ذہنی اعتبار سے معذور پیدا ہوئے۔ چھوٹی بیٹی کی شادی ہوئی تو وہ اولاد سے محروم رہی۔ مزید یہ کہ اس خاندان کی جائیدادیں اور کاروبار ختم ہوگیا۔ ریسٹ ہائوس بھی بیچناپڑا، بھوک، تنگدستی اور ذلت اس خاندان کی پہچان بن گیا۔ میرے ماموں کا معاملہ بھی کچھ ایسے ہی ہے انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی ایک ہی گھر میں کی دونوں بھائیوں سے، اپنی ساری خواہشات پوری کیں، اپنی ہمت کے مطابق ہر چیز اعلیٰ لے کر دی، جہیز میں کوئی چیز نہ چھوڑی ایک ایک چیز لے کر دی۔ سلینڈر تک لے کر دئیے اور خوب دھوم دھام سے شادیاں کیں۔ شادی کھی بھی 12 ربیع الاول کے دن تھیں۔ 12 ربیع الاول کو مہندی تھی ہم نے بہت منع کیا آج 12 ربیع الاول ہے اس دن کی لاج رکھ لیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہماری مہندی خراب نہ کرو، کچھ نہیں ہوتا، ہماری خوشیوں کو نظر نہ لگائو، تم لوگ جیلس ہورہے ہو۔ میوزک عروج پر تھا اور ڈھولک بھی رکھی ہوئی تھی۔ شکر ہوا لڑکے والے نہیں آئے انہو ںنے اپنے گھر میں ہی ناچ گانا کیا۔ ولیمے میں بھی بہت میوزک تھا اورڈانس تھا، ان ساری باتوں کا نچوڑ یہ نکلا کہ پچھلے سال جنوری میں شادی ہوئی تھی اور ایک بیٹی کو اللہ نے بیٹا دیا ایک کے گھر کوئی اولاد نہیں ہے، ایک بیٹی ڈلیوری سے پہلے والدین کے گھر آگئی اور چھ ماہ کا بیٹا جب ہوا تو گھر گئی۔ دوسرے دن یاغالباً 2 ہفے رہی ہوگی دونوں بہنیں واپس آگئیں اور نوبت طلاق تک پہنچی ہوئی ہے۔ میرے ماموں سمجھتے تھے چیزوں سے گھر بنتے ہیں، خوشیاں دولت سے نہیں خریدی جاسکتیں، اور نہ ہی اولاد سے خریدی جاسکتی ہیں۔ جو رویہ انہوں نے اپنی بھابھی کے ساتھ برتا ویسے ہی سیم ان کے ساتھ ہوا۔ بس فرق اتنا ہے کہ ان کی بھابھی غریب گھرانے کی تھی جہیز وغیرہ کچھ نہیں لائی تھیں اور قدرت نے انہیں اولاد نہیں دی اس کے شوہر میں نقص تھا، سارا دن گھر کے کام کاج کرتی اور رویہ اس کے ساتھ بہت برا۔ کھانا وغیرہ پکوالینا اور جب کھانے کی باری آتی ایسے ایک لقمہ بھی نہ دینا، نوکرووں سے بھی بدتر سلوک، شوہر نے آنا ہے رات کو کھانا بازار سے لانا ہے تو کھانا ہے ورنہ بھوکا ہی سوجانا ہے کسی نے نہیں پوچھنا۔ ہمارے جیسے اگر کوئی چلا گیا اور پوچھ لینا وہ وہاں سے اٹھ کر چلی جاتی۔ بس گھر والوں نے کہنا کہ یہ تو ڈرامے کرتی ہے۔ بالکل یہی سلوک ان کے ساتھ ہوا انہیں برداشت نہ ہوا جس جس بات کے طعنے انہوں نے دئیے اور اپنی بھابھی کو مارتی تھی اور اولاد نہ ہونے کے طعنے اور سارا دن کام لینا اور کھانے کو نہ پوچھنا خود پاس بیٹھ کر کھالینا۔ اسی طرح ہی ان کے ساتھ ہوا اللہ نے انہیں دیکھا دیا اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے۔ کیا شادی اسی کا نام ہے چند منٹ یا چند گھنٹے لطف اندوز ہونے کی خاطر اپنی دنیا و آخرت برباد کربیٹھیں۔ دوسروں کی بیٹیوں کو تکلیف پہنچا کر اپنی خوشیاں تلاش کریں، یہ ناممکن ہے۔ دوسرا میرے ماموں کی جب سے شادی ہوئی ہروقت ان کی شادی کی مووی لگاکر بیٹھے رہنا، جب بھی فون کرنا مووی دیکھ رہے ہیں۔ میوزک اتنا اونچا ہوتا کہ سارے گھر میں دھمال ہوتی، جب بھی سننا مووی دیکھ رہے ہیں۔ کوئی مہمان چلا جائے انہیں بھی مووی دکھانی، اب مووی کی جان چھوٹ گئی ہوگی کیونکہ اب معاملات طلاق تک پہنچ گئے ہیں۔ نہ اذان کی پروا نہ نماز کی، ہم بھی اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو کئی ایسے گھرانے ملیں گے جو سامان عبرت ہوں۔ حدیث میں ہے کہ ایسے شخص کو سعادت مند کہا گیا ہے جو دوسروں کو دیکھ کر عبرت پکڑے، اس لئے یہ واقعات کہانی نہیں بلکہ ہماری اصلاح کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
رابعہ۔ لاہور
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں