قارئین! میرا غم طویل‘ میرا قصہ ناقابل بیان لیکن کیا کروں اب میرا دل مجھے مزید اجازت نہیں دےرہا کہ اس طویل غم کو دل ہی دل میں چھپا کر رکھوں میں کچھ ماہ آپ سے لوں گا‘ موبائل‘ انٹرنیٹ اور کھلے عام میل ملاپ کابہت زیادہ دخل ہے۔ اس غم میں آپ بھی میرے شریک بنیں ۔ میرا ساتھ دیجئے گا میرے ساتھ رہیے گا اور اس کا حل ضرور بتائیے گا۔ اپنی کوتاہی یا کسی نے کچھ کردیا:1۔ ’’محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میرا بیٹا ساری رات موبائل پر باتیں کرتا ہے اور صبح ہوتے ہی سو جاتا ہے۔ دو، تین بجے سو کر اٹھتا ہے‘ ناشتہ کیا اور ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتا ہے‘ سارا دن نہ کوئی کام‘ نہ کاج میں نے کئی جگہ منتیں کرکے لگوایا لیکن یہ صرف دو، چار دن ہی جاتا ہے کوئی بات نہیں سنتا۔ کچھ کہوں تو آنکھیں نکالتا ہے۔ جہاں اس نے کہا منگنی کردی ہے۔ ہمارے کچھ چاہنے والےبہت حاسد ہیں‘ کسی نے کچھ کیا ہے یا اس کی اپنی کوتاہی ہے۔ بہت ہی تنگ کرتا ہے‘ جہاں جانا ہوتا ہےباپ سے پیسے لےکر جاتا ہے۔ اس کے باپ کا 2002ء میں ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ان کی دائیں ٹانگ کٹ گئی تھی۔ موبائل‘ انٹرنیٹ نے اس کو بالکل نکما کرکےرکھ دیا ہے۔آپ نے جو وظیفہ بتایا تھا دسمبر سے فروری تک پڑھا بیٹی منگنی ہوگئی۔‘‘دوسراخط ملاحظہ فرمائیے:چھوٹی عمر کا عشق: ’’محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں آٹھویں جماعت کی طالبہ ہوں اور مجھے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے۔ میرے سکول میں ایک لڑکا ہے۔ وہ بھی آٹھویں کلاس میں ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے بہت پیار کرتے ہیں لیکن کلاس میں سب کو اس بات کا پتہ لگ گیا اور اس کو ٹیچر سے بہت مار پڑی۔ اب ہم دونوں ایک دوسرے کو سب کے سامنے نہیں بلاتے مگر موبائل فون پر بات کرتے ہیں میں کچھ دنوں سے غور کررہی ہوں کہ اس کے دل میں میرے لیے محبت کم ہوگئی ہے‘ میری کلاس میں ایک لڑکی ہے وہ بھی اسے پسند کرتی ہے لیکن وہ مجھے پسند کرتا ہے۔ براہ مہربانی کوئی وظیفہ بتائیں کہ وہ صرف مجھے ہی پسند کرے اور بڑا ہوکر بعد میں اپنے گھر والوں کو میرے گھر بھیج کر مجھ سے شادی کرلے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں‘ میں اس کے بغیر رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہم دونوں کو کوئی وظیفہ بتادیں۔ شکریہ!‘‘ تیسرا خط ملاحظہ فرمائیں: موبائل ‘ انٹرنیٹ اور والدین کی لڑائی: ’’محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں اپنی بیٹی کے کچھ مسائل لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔ اپنی اس بیٹی کے حوالے سے بہت پریشان ہوں۔ اس کے بگڑنے میں ہم میاں بیوی کا بہت عمل دخل ہے‘ ہم نے اسے چھوٹی ہی عمر میں انٹرنیٹ کنکشن اور موبائل لے کر دیا ہم آپس میں ہی لڑتے جھگڑتے رہے اس پر بالکل بھی توجہ نہیں دی۔ آج وہ جس جگہ کھڑی ہے وہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہوں:۔ بچپن سے ہی غصہ‘ ناراضگی‘ نافرمانی اور حسد طبیعت کا حصہ ہیں۔ مجھے (ماں) بالکل بھی پسند نہیں کرتی۔ باپ کی پھر بھی کبھی بات سن لیتی ہے۔ 8thکلاس میں اپنی ٹیوشن ٹیچر سے بہت زیادہ متاثر تھی‘ ان کو فون کرنا‘ تحفے دینا‘ ان کی باتیں کرنا‘ ٹیچر نے زیادہ لفٹ نہ کرائی توامتحان بڑی بےدلی سے دئیے‘ مشکل سے پاس ہوئی۔ اس کے بعد کالج میں ایک دوست کو اپنی دوست اور ماں کادرجہ دے دیا۔ وہ عورت غلط قسم کی تھی‘ بڑی مشکل سے اس سے چھڑایا۔ اس کے بعد یہ بے راہ روی کا شکار ہوگئی‘ ہمارا ڈرائیور تھا جسے ہم اپنا بڑا اعتباری بندہ سمجھتے تھے۔ اس کے ساتھ فون پر بات کرنا شروع کردی۔ بس آپ کو کیا بتاؤں اللہ نےعزت بچالی‘ بس وقت پر ہمیں معلوم ہوگیا۔ محترم حضرت حکیم صاحب! ہم میاں بیوی کے جھگڑوں نے اس کو بہت تنہا کردیا‘ یہ اب دوسروں کی دوستی چاہتی ہے‘ مگر اس کی دوستی ہمیشہ غلط لوگوں سے ہوئی۔ مجھے اور اپنے باپ کو گندی ننگی گالیاں دیتی ہے‘ اکثر بددعائیں دیتی ہے۔ غصے میں بے قابو ہوجاتی ہے۔ ساری ساری رات انٹرنیٹ کی دنیا میں کھوئی رہتی ہے۔ بچپن میں نماز پڑھ لیاکرتی تھی اب بالکل بھی نہیں پڑھتی۔کسی آئے گئے کا لحاظ نہیں کرتی۔ ہر کسی کے سامنے بے عزت کردیتی ہے۔ خاندان کی تقریباً سب لڑکیوں کی شادیاں یا رشتے ہوگئے‘ ہم سے آج تک کسی نے اس کے رشتے کے سلسلے میں بات نہیں کی۔‘‘قارئین! غمزدہ تحریریں، آپ کی خدمت میں پیش کردی ہیں‘ اس کا ازالہ کیا ہے اور تدبیر کیا ہے؟ میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں