گھر کے سبھی لوگ اکٹھے تھے‘ بزم امین کے سب لوگ جمع تھے‘ اس کا نمبر آیا تو اس نے اصلاح معاشرہ کے عنوان پر تقریر کرنا شروع کی‘ اس نے کہا معاشرہ کی اصلاح اس لیے نہیں ہورہی ہے کہ ہر آدمی کو اس کی فکر ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کیسےہو؟ اس کی فکر بالکل نہیں کہ میری اصلاح کیسے ہو؟ ننھی سی بچی کی اس تقریر نے پورے خاندان کو جھنجوڑ دیا‘ اس حقیر کو اس کی تقریر سن کر جہاں اپنے اس خیال پر اعتماد بڑھا وہیں دل کی گہرائی سے یہ نکلا: الحمدللہ الذی ھدانا لھاذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا اللہ۔
اللہ تعالیٰ نے کیسا پیارا دین عطافرمایا کہ زندگی کی چولوں کو ٹھیک رکھنے کیلئے دعوت کو فرض منصبی قرار دیا‘ ملت اگر دعوت کو مقصد بنالے تو خیر کےدہانے اللہ تعالیٰ کھول دیتے ہیں۔ اس خیال سے کہ گھر میں دعوت کا ماحول بنے‘ بچوں اور بچیوں میں دعوتی شعور بیدار ہو‘ خاندان میں ہر گھر میں اس کا سلسلہ شروع کیا گیا کہ ہفتہ میں ایک مجلس گھر کے افراد کی ہو اور اس میں گھر کا ہر فرد کسی موضوع پر تقریر کرے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر فرد کو کچھ یاد کرنے اور دین کے بارے میں معلومات کا شوق ہوگا اور جب وہ دوسروں کے سامنے کہیں گے تو پھر خود ان کے اندر دین پر عمل کی توفیق بڑھے گی‘ عید وغیرہ کے موقع پر جب سب خاندان کےلوگ جمع ہوتے ہیں جس میں یہ سلسلہ ہوتا ہے۔ والد محترم کے نام سے اس کا نام بزم امین، بزم امین ب وغیرہ رکھ دئیے گئے دعوتی پس منظر میں بچے ایسے ایسے پیرایہ میں مختلف موضوعات پر بات کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے‘ ایسی ہی تقریر اس بچی نے بھی کی ہے‘ واقعی یہ بات بڑی کلیدی ہے کہ اصلاح معاشرہ کی ساری کوشش بے سود اس لیے ہے کہ ہر آدمی کو اصلاح معاشرہ کی فکر ہے‘ اپنی اصلاح اور خود عمل سے بے نیاز ہوکر اصلاح معاشرہ کی کوئی کوشش سود مند نہیں ہوسکتی ہے۔ ابلیس لعین جس کانام عزازیل تھا۔ جب اس کو اپنی عبادات اور مقبولیت پر غرور ہوا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوا کہ ہم ایک بندہ کو راندہ درگاہ کرنے
والے ہیں۔ سارے فرشتے تھرا گئے ہر ایک گھبرا کر عزازیل کے پاس آتا تھا کہ ہمارے واسطے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں راندہ درگاہ نہ کرے۔ ابلیس بڑے ناز سے کہتا آپ فکر نہ کریں‘ میں اللہ سے آپ کیلئے دعا کروں گا‘ اس کے دل میں یہ خیال بھی نہ آیا کہ میں بھی راندہ درگاہ ہوسکتا ہوں۔ اس لیے اپنے کو اصلاح حال سے بے نیاز سمجھتا رہا۔ یہ شیطانی جبلت ہے جو ہمیں اصلاح حال سے محروم کئے ہوئے ہے بس ہر ایک کو دوسروں کی اصلاح فکر ہے۔ اصلاح معاشرہ کی کوشش کرنے والے مقررین کے ذہن اکثر اپنی اصلاح حال کی فکر سے خالی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ تقریر سننے والوں کے ذہن میں بھی اپنی اصلاح حال کی فکر سے خالی ہیں۔ تقریر و وعظ سن کر نکلنے والے لوگ یہ سرگوشی کرتے نکلتے ہیں کہ فلاں حاجی صاحب نے یہ بتایا، دیکھا مولانا صاحب کیا فرما رہے تھے اور وہ صاحب کیا کرتے ہیں‘ اپنے حال کا محاسبہ اور اپنی اصلاح کی کوشش اور فکر مفقود ہوتی جارہی ہے جن مصلحین نے دنیا میں اصلاح حال کا تجدیدی کارنامہ انجام دیا وہ دوسروں کو وعظ اپنے حال کی اصلاح کیلئے کہتے تھے۔ حکیم الامت فرماتے تھے جب میں اپنے اندر کسی چیز کی کمی دیکھتا ہوں تو دو چار وعظ اس موضوع کے کہہ لیتا ہوں گویا وہ دوسروں کو وعظ و نصیحت اس لیے کرتے تھے کہ کہنے سے خود کی اصلاح ہوجائے گی اصلاح معاشرہ میں جان پیدا کرنے کیلئے یہ سوچ کہ میں سب سے زیادہ اصلاح کا محتاج ہوں۔ شاہ کلید ہے۔ کاش ہمیں اس کی فکر ہو!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں