Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

میری زندگی کیسے بدلی؟

ماہنامہ عبقری - نومبر 2015ء

قارئین! حضرت جی! کے درس‘ موبائل (میموری کارڈ)‘ نیٹ وغیرہ پر سننے سے لاکھوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں‘ انوکھی بات یہ ہے چونکہ درس کےساتھ اسم اعظم پڑھا جاتا ہے جہاں درس چلتا ہے وہاں گھریلو الجھنیں حیرت انگیز طور پر ختم ہوجاتی ہیں‘ آپ بھی درس سنیں خواہ تھوڑا سنیں‘ روز سنیں ‘ آپ کے گھر‘ گاڑی میں ہروقت درس ہو۔

محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! مجھے ماہنامہ عبقری ملے تقریباً تین سال ہوچکے ہیں۔ میں آج آپ کو اپنی زندگی کے گزشتہ تقریباً پندرہ سال کی کہانی سنارہی ہوں۔ یہ پندرہ سال میں نے دوزخ میں گزارے ہیں۔ پل پل جئی ہوں اور پل پل مرتی رہی ہوں اور پھر میری زندگی میں سکون کیسے آرہا ہے یہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گی پہلے میری کہانی میری زبانی سنیے:۔میں ایک سکول ٹیچر تھی جہاں ایک لڑکا اپنی بھتیجی کو چھوڑنے روز آتا۔ وہ تقریباً روز میرے سامنےآتا جسے میں نظرانداز کردیتی۔ پھر تقریباً تین سال تک وہ مختلف ذرائع سے مجھے پیغامات بھیجتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ پتہ نہیں کیا ہوا میرا دل بھی اس کی طرف مائل ہوگیا۔ خط و کتابت کے ذریعے ہمارا رابطہ شروع ہوا اور پھر یہ خط وکتابت ملاقاتوں تک بڑھ گئی۔میرے والدین نہایت ہی شریف اور سادہ لوح انسان تھے۔ اہل علاقہ میرے والدین کی نہایت عزت کرتے تھے۔ آج تک کسی نے میرے والد کو کسی کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا تھا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد میں نے گھر میں شادی کیلئے شور ڈالنا شروع کردیا اور اپنی پسند سب کو بتادی۔ میری والدہ اور والد نے مجھے بہت سمجھایا مگر میں نہ مانی۔ میں نے کہا اگر آپ نے میری اس سے شادی نہ کی تو میں اس کے ساتھ بھاگ جاؤں گی۔ میرے سر پر نام نہاد پیار کا بھوت سوار تھا۔ بہرحال میرے تمام گھر والے میرے شدید مخالف ہوگئے مگر میں بھی اپنی ضد پر اڑی ہوئی تھی اور آخرکار میرے بھائی اور بالخصوص ابو چارو ناچار میری شادی کیلئے تیار ہوگئے‘ وہ راضی نہ تھے مگر اپنی عزت کیلئے شادی کی اجازت دے دی۔ شادی یوں ہوئی کہ ایک محبت کیلئے میں نے ساری محبتوں کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالا۔ رخصتی کے وقت میں نے دیکھا کہ میرا باپ گلی کی نکر پر کھڑا بے بسی سے آنسو بہارہا تھا مگر میں خوشی سے سرشار گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔ میں نے اپنے ماں باپ کے ارمانوں‘ محبتوں‘چاہتوں اور دعاؤں کو بھول کر ایک انجان شخص کو اپنا جیون ساتھی بنالیا تھا۔تمام راستے میں بہت ہی زیادہ خوش تھی کہ میں نے جو چاہا تھا اسے پالیا۔ میرے شوہر بھی بہت ہی زیادہ خوش تھے کہ ہمیں ہماری محبت مل گئی۔مگر! جن لوگوں کو میں اپنا سمجھ کر آئی تھی‘ میرے اس گھر میں قدم رکھتے ہی تمام گھر والوں کے روئیے بدل گئے۔ میرے شوہر کچھ عرصہ تو میرے ساتھ بہت اچھے طریقے سے پیش آئے۔ شادی کے آٹھ ماہ کے بعد میرے شوہر کی جدہ میں جاب لگی اور وہ جدہ چلتے بنے اور مجھے اپنے
گھر والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلے گئے۔ چونکہ شادی میں نے اپنی مرضی سے کی تھی تو میرے گھر والوں نے بھی پلٹ کر میری طرف نہ دیکھا۔ شوہر کے جانے کے بعد مجھے ہروقت سسرال والوں کے طعنے‘ تشنے سننے کو ملتے‘ گھروالے ملتے نہیں تھے اور شوہر اپنے گھر والوں کے خلاف کوئی بات سن سکتے ہی نہیں تھے۔ کیسے دن کٹے‘ کیسے مر مر کے زندہ ہوئی اس کو لکھتے ہوئے تو میرا قلم بھی میرا ساتھ نہیں دے رہا۔ شادی کے سال بعد اللہ نے بیٹی کی رحمت سے نوازا۔ بعدازاں کچھ حالات ایسے ہوتے گئے کہ سسرال سے دھکے دے کر نکال دی گئی۔ میں بے سرو سامانی کے عالم میں گلی میں بیٹھی اپنی غلطی پر رو رہی تھی۔ اس دن بار بار میری آنکھوں کے سامنے اپنے آنسو بہاتے باپ کی صورت آرہی تھی۔ مجھے میرا ضمیر جھنجھوڑ رہا تھا کہ تو نے اپنے ماں باپ کا دل دکھایا ہے تجھے اسی کی سزا مل رہی ہے۔ خیر میں نے شوہر کو جدہ فون کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے تو انہوں نے کسی کو کہہ کہلوا کر فوراً میرے لیے علیحدہ کرائے پر مکان کا بندوبست کیا اور چار گھنٹوں کے اندر اندر میں اپنے انجان گھر انجان محلے میں تھی۔پہلے والدین سے دوری‘ پھر شوہر سے دوری‘ اپنوں سے دوری اور پھر ایک چاردیواری میں قیدی کی طرح بیٹھی رو رہی تھی۔ میرے شوہر باہر سے پیسے بھیجتے تو میرا گھر چلتا‘ پھر میری زندگی میں ایک اور موڑ آیا جب میرے گھر کے سامنے ایک کریانہ کی دکان میں ایک لڑکا بیٹھا تھا‘ جب اس سے سودا سلف لیتی تو نہایت محبت و پیار سے بات کرتا‘ میں ایک بار پھر اس ’’پیار‘‘ کے بھنور میں پھنس گئی۔ مجھے نہ کوئی سمجھانے والا تھا‘ نہ روکنے والا‘ نہ ہی کسی کا ڈر تھا۔میں گناہوں کی دلدل میں ایک بار پھردھنستی چلی گئی اور اس لڑکے ساتھ تین سال گزارے۔ نہ مجھے خدا یاد تھا نہ ہی
خدا کا ڈر۔ تقریباً ساڑھے تین سال کے بعد میرے شوہر واپس آئے اور اس علاقے سے دور ایک جگہ پر اپنا مکان خریدا اور اس طرح میرا اور اس لڑکے کے درمیان گناہ کا تعلق ختم ہوا۔ بعد میں بھی وہ کبھی میرے پیچھے نہ آیا۔ واپس آکر میرے شوہر نےاپنی بیٹی کو بھی دیکھا اس کے بعد جب اپنے گھروالوں سے ملنے کیلئے لے گئے تب سے اب تک ان کے رویے میں میرے لیے کوئی تبدیلی نہ آئی۔ میرے شوہر سال بھر فارغ رہے۔ رات کو دیر سے آنا اس کا معمول تھا پوچھنے پر گالیوں کے سوا کچھ نہ ملتا۔ یہ وہ شخص تھا جس کی خاطر میں نے اپنوں کو چھوڑا ان کی مخالفت کو مول لیا مگر وہ اب میرے پاس بیٹھنا تک گوارا نہیں کرتا تھا اور پھر اسی دوران اللہ نے مجھے بیٹا دیا۔پھر زندگی سے مایوس ہوکر خودکشی کی بھی کوشش کی تو اس پر اکڑ کر کہتا ’’ مرنا ہے تو اپنوں میں جاکر مرو‘‘ کچھ عرصہ پہلے میری ہمسائی نے مجھے ماہنامہ عبقری دیا‘ میں نے پڑھا تو مجھے لگا کہ جیسے کوئی سچا رہبر مل گیا۔ میں نے اپنی ہمسائی سے تفصیل سے عبقری کے متعلق پوچھا‘ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کے بارے میں پوچھا۔ اس نے مجھے موبائل کارڈ میں آپ کے تمام درس کروا کے دئیے جو میں نے سننے شروع کردئیے۔ بس پھر کیا تھا؟ جیسے جیسے درس سنتی چلی گئی زندگی بدلتی چلی گئی۔ مجھے اپنے بے حیا اور فحش نفس سے نفرت ہونا شروع ہوگئی۔ مجھے یاد بھی نہیں کہ میں نے اپنے پیارے اللہ کو کتنے عرصے بعد یاد کیا‘ بہت روئی‘ بہت گڑگڑائی‘ رو رو کر اللہ سے توبہ کی۔ اس کے اگلے دن اپنے شوہر سے اجازت لے کر اپنی ہمسائی کے ساتھ اپنے والدین کے گھر آئی اپنے ابو اور امی کے پاؤں میں سر رکھ کر رو رو کر معافی مانگی۔ مزید رشتے دار بھی اکٹھے ہوگئے سب نے میرے والدین کو بڑی مشکل سے منایا۔ والدین نے مجھے معاف کردیا۔ شام کو گھر آئی تو دل میں کچھ سکون تھا۔ اب نماز پڑھی شروع کردی ہے‘ ہروقت اللہ کو یاد کرتی رہتی ہوں‘ سارا دن گھر میں آپ کا درس چلتا ہے۔ میں نے اپنے ماں باپ کا دل دکھایا‘ ان کی نافرمانی کی‘ 

اپنے شوہر کے ساتھ غداری کی‘ اس کی غیرموجودگی میں اپنی عزت کو غیر کے ہاتھوں میں تھمادیا جس کی مجھے خوب خوب خوب سزا ملی۔ شاید مجھے عبقری نہ ملتا تو نہ جانے اب میں کہاں سے کہاں ہوتی؟ مگر عبقری اور درس نے میری زندگی میں سکون بھردیا ہے‘ میرے شوہر کا رویہ بھی دن بدن اب بدل رہا ہے‘ اب بچوں سے بھی پیار کرتے ہیں اور ان کی نوکری بھی اسی شہر میں لگ گئی ہے۔ آہستہ آہستہ اب میرے مسائل حل ہورہے ہیں۔ سارا دن اعمال کرتے گزرتا ہے‘زندگی میں ایک ٹھہراؤ سا آگیا ہے۔ میرے شوہر بھی اب آپ کے درس سن رہے ہیں‘ یہ درس ہی کی برکت ہے کہ میرے شوہر میں اتنا بدلاؤ آرہا ہے۔ اب جب اپنے گزشتہ گناہوں بھری زندگی بارے سوچتی ہوں تو کانپ کر رہ جاتی ہوں۔

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 180 reviews.