Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

حال دل

ماہنامہ عبقری - نومبر 2015ء

انسان ساری زندگی سیکھتا چلا آرہا ہے اور کیا تقدیر کا نظام ہے یوں تھوڑا سا سیکھا اور کچھ سکھانے کے قابل ہوااجل کا پیغام بہت تیزی سے اس کا تعاقب کرنے لگا۔ 23 دسمبر 2001ء میں باقاعدہ امرالٰہی سے ایسے اسباب بنے کہ میں نے اپنا ٹھکانہ مستقل لاہور رکھا اور مجھے شیخ حضرت خواجہ سید محمدعبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی وہ پیشنگوئی زندہ ہوتی نظر آئی۔ اس ہجرت سے پہلے بھی اور اس ہجرت کے بعد بھی‘ جس گھر سے سب سے زیادہ مجھے تالیف قلبی ملی 28 ستمبر 2015 بروز پیر اس عظیم محسن کا انتقال ہوا۔ ابھی حج کی حاضری سے واپسی ہوئی تھی کہ سیدھا ان کے گھر پہنچا‘ کفن میں لپٹی بالکل خاموش اس ارب پتی کی میت رکھی‘ مجھے کچھ پیغام دے رہی تھی‘ لوگ سمجھ رہے تھے کہ میں خاموش بیٹھا ہوں‘ میں خاموش نہیں بیٹھا تھا میرے اندر سوچیں‘ جذبات‘ خیالات اور احساسات کا ایک تلاطم تھا اور سمندر کی موجیں تھیں جو میرے دل و دماغ پر مسلسل ٹکڑا کر ہر دفعہ ایک انوکھا پیغام چھوڑے چلی جارہی تھیں‘ یہ سفید چادروں میں لپٹا عظیم محسن جو پیغام چھوڑ رہا تھا اور جو میری سوچوں‘ سمجھ‘ شعور‘ عقل‘ احساس‘ فہم فراست اور سالہا سال کے مشاہدے نے نچوڑ لیا وہ دراصل یہ تھا۔ پہلے دور میں سنا تھا بڑی بوڑھیاں دعائیں دیتی تھیں کہ اللہ تجھے سات بیٹے عطا فرمائے! اس عظیم محسن کے سات بیٹے ہیں لیکن وہ آدمی نہیں ہیں بلکہ انسان ہیں جنہوں نے باپ کی طویل علالت میں ایسے خدمت کی جیسے کہ گلاب کے پھولوں کو سنبھال اور سنوار کے رکھا جاتا ہے۔ اگر آدمی ہوتے تو مجھے خدمت کی امید نہ ہوتی بلکہ وہ باپ کو کسی گاؤشالہ (اولڈ ہوم) میں چھوڑنے کا مشورہ کرتے یا پھر باپ کی زندہ میت کبھی اس گھر‘ کبھی اُس گھر ٹھوکریں کھاتی رہتی جو کہ معاشرے میں ہمیں روزانہ ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں یا پھر اگر شرم ہی شرم میں گھر رہتی بھی تو ایک اذیت ناک موت باپ مرتا‘ میں نے جب اس عظیم محسن کا چہرہ دیکھا موت کے آثار نظر نہیںآرہے تھے اور موت کی تکلیف اور کرب چہرے کی کسی لکیر سے عیاں نہیں تھی بلکہ ایمان کی موت اور خدمت کی موت چہرے کی ہر ہر لکیر اور ہر ہر بال سے واضح نظر آرہی تھی۔ ہر بیٹے نے جی بھر خدمت کا حق ادا کیا‘ دن اور رات کوباری کے ساتھ جاگنے کا شیڈول تھا‘ اپنی جوانی کی نیند اور جوانی کی کمائی باپ پر لگائی نہیں بلکہ بہائی اور وہ عظیم باپ بھی کیا تھا جس کی نیکیاں تو بہت ساری ہیں پر ایک نیکی مجھے خود سبق دےگئی ہے وہ تھا رزق حلال اور معاملات میں احتیاط۔ اس شخص کی معاملاتی زندگی ایسی اپنے تو اپنے غیر بھی تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔ کاروبار کی ابتدا میں ایک کاروباری شریک تھے‘ فوت ہونے کے بعد اس شریک کی بیٹیوں اور خاندان کو ایسا سنبھالا کہ وہ باپ کی محرومی اور جدائی کو ایسے جیسے بھول گئی ہوں‘ مجھے انہوں نے خود بتایا کہ جس طرح اپنے بیٹوں کو حج کرایا اسی طرح ہمیں حج کرایا ‘جس طرح انہیں حق دیا‘ اسی طرح ہمیں حق دیا بلکہ بیٹوں سے کہیں زیادہ ہمیں دیا۔ یہ وہ لفظ تھے جو ان کی زندگی میں کاروباری پارٹنر کے گھر والوں نے مجھے بتائے۔ وہ مزاج کے دبنگ تھے‘ معاملات کے کھرے تھے اور لباس کے اُجلے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رزق حلال اولاد کو ایسا ملا کہ سات بیٹے اور دو بیٹیاں تربیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے۔ میں جنازے میں سات بیٹوں پر نظر ڈالتا اور کبھی دونوں شریف اور باحیا دامادوں پر تو مجھے احساس ہوتا ایک ہے حق کھانا‘ ایک ہے حق دینا اور ایک ہے جھکتا دینا ۔ مرحوم نے جھکتا دیا اور رب نے پھر انہیں اتنا جھکتا دیا کہ بعض اوقات مجھے اپنے پہلے اور بعد کے حالات تفصیل سے بتاتے اور حیرت سی ہوتی اور حیرت ایسی ہوتی کہ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے۔یہ رزق حلال جو نسلوں کو دیا وہ ان کے جوان پوتے اور پوتی اور پھر پڑپوتوں میں بھی واضح نظر آرہا۔ رزق کی برکت سے ایک بیٹا حق کی راہوں پر چلا گیا اور اس سہیل بیٹے نے سب کو ایسی زندہ اور تابندہ راہوں پر لگایا جن راہوں نے آدمی سے انسان بنادیا۔ ان کی ہر ہر خوبی ناقابل بیان ہے۔ جب 2002 ءمیں پہلے تسبیح خانہ لاہور(وہ تسبیح خانہ بھی تھا‘ رہائش بھی‘ مہمان خانہ بھی اور کلینک بھی) کی بنیاد رکھی گئی چند آدمی دعا میں شامل تھے مرحوم دوکلو مٹھائی کا ڈبہ بانٹنے کیلئے لائے‘ میں اکثر ان سے عرض کیا کرتا ہوں کہ پورے ورلڈ میں عبقری کے لاکھوں کروڑوں جو قرآن و سنت اور مسائل و مشکلات اور الجھنوں سے نکلنے کا فیضان پارہے ہیں وہ اس دوکلو مٹھائی کے ڈبے کی کرامت ہے۔ وہ اس وقت نہیں بٹا تھا بلکہ وہ مٹھائی مخلوق کو آسانیاں پھیلانے کی شکل میں قیامت تک انشا اللہ بٹتی چلی جائے گی۔ جہاں میرے اوردوسرے خدمت اور ساتھ دینے والوں کواس کا ثمرہ اور صلہ ملے گا وہاں مرحوم کو ایک ڈھیر سارا اجر اور جزا اور صدقہ جاریہ کا سلسلہ ملےگا‘ اور مل رہا ہے۔میری اہلیہ مجھے بتانے لگیں جسے سن کر میں چونک پڑا‘ گھر میں کوئی واہی تباہی شور شرابہ اور بے ترتیب میت پر رونے کا بے ڈھنگ انداز جسے اسلام اور معاشرے نے ہمیشہ ناپسند کیا ہے‘ بالکل نہیں تھا ہرآنکھ اشکبار ہر دل اور جی سسکیوں سے لبریز لیکن سب کچھ اخلاق اور شریعت کی حدود میں‘ رونا کوئی بزدلی نہیں بلکہ اپنی بیوی‘ بیٹی‘ بیٹیوں اور بیٹوں کی موت پر اللہ کے حبیب ﷺ بھی روئے لیکن اس خاندان نے اتنے عظیم محسن کی موت پر یہ ایک اخلاقی ریت روایت زندہ کرکے دکھادی‘ بیٹے اشکبار ہیں‘ سسکیاں ہیں‘ لیکن کچھ ایسا انداز نہیں کہ دسیوں بیسیوں آدمی ان کو سنبھالنے کیلئے بے چین ہوں اور گھر میں بے شمار عورتیں ایک عورت کو سنبھال رہی ہوں اور بار بار ایک میت پر گررہی ہو اور چالیس گھر دور اس خاتون کی آوازیں ضبط سے سن رہے ہوں۔ یہ منظر دیکھنے کو نہ ملا۔ قارئین! یہ میرے آپ کیلئے سبق ہیں میری ہر تحریر تعریف نہیں ہوتی لیکن اس کے اندر کچھ سبق اور کچھ راز سمجھنے والوں کیلئے ہوتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ انوکھی بات کہ بیٹے نے جنازہ پڑھایا‘ میں سوچتا رہا طارق! اے کاش تیری بھی اولاد ایسی ہو اور انشاء اللہ اللہ نے چاہا تو ہوگی اور تیری بھی میت تیرے بیٹے کے سامنے ہو۔ قارئین! اس سارے مضمون میں جہاں میں اپنے محسن کا تذکرہ بھلانا نہیں چاہتا وہاں کچھ سبق بھی آپ کو دینا چاہتا ہوں جس میں پہلا سبق: رزق حلال اور معاملات کی پاکیزگی۔ دوسرا سبق: سات بیٹے اور دو بیٹیوں کی اعلیٰ تربیت اور ان میں انسانیت اور بہترین اچھے معاملات اور اخلاق۔ تیسرا سبق: موت تو سب کے ساتھ رہے گی اور ہے پرمیت پر کیسے رونا ہے اور کیسے اس کو گھر سے رخصت کرنا ہے؟ آنسوؤں‘ آہوں‘ سسکیوں کے ساتھ یا بے ڈھب اور بے ترتیب غم کے انداز کے ساتھ۔ چوتھا سبق: اے کاش! کسی کی اولاد اتنی اہل ہو کہ وہ بھی باپ کا جنازہ پڑھانے کے قابل ہو۔ میں ابھی بھی سوچتا ہوں تو مجھے وہ محسن ان کی باتیں ان کا لہجہ اور ان کے معاملات کی سچائی بس آنکھوں کے سامنے گھومتی چلی جاتی ہے اور پھر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہتا ہوں کہ یااللہ! تجمل الٰہی شمسی کو اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ عطا فرما آمین ثم آمین! اس محسن کا احسان میرے اوپر قرض ہے شاید میں دنیا میں کبھی بھی نہ اتار سکوں۔اس لیے میں اس محسن کو ارب پتی کہتا ہوں کیوں؟ وہ خودجن کے پاس اور اُن کی نسلوں کے پاس اتنی اعلیٰ صفات ہوں وہ یقیناً ارب پتی ہیں اور اگر مالی طور پرارب پتی ہونےکے باوجود بھی اگر یہ صفات نہیں ہیں تو وہ یقیناً بے قیمت ہے۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 158 reviews.