حضرت جی کے ہر درس میں گونگے مرد ساتھ لائیں۔ درس کا اشاروں میں ترجمہ ہوگا۔
مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے رب سے باتیں کرنا: مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ کشتی میں جارہے تھے۔ کچھ دینار ان کی جیب میں تھے بعض روایات میں آتا ہے جیب میںکچھ نہیں تھا۔ ایک اورروایت میں آتا ہے کہ ان کے دینارسمندر میں گر گئے تھے ۔اب کشتی والا سب سے کرایہ لے رہا تھا، جب ان کی باری آئی تو جیب میں ہاتھ ڈالا،جیب میںکچھ نہیں تھا،کشتی بان نے کہا پیسے؟ ’’مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ کہنے لگے رکیں!!میں کرایہ دیتا ہوں‘‘ پہلے اوروں سے لے لویہ کہہ کر دل ہی دل میں اللہ سے باتیں کرنا شروع کر دی کہ:’’ اے اللہ تو جانتا ہے فلاں موقع پر حرام کا موقع آیا تھا، میں نے وہ موقع تیری وجہ سے چھوڑ دیا تھا ۔اللہ اس وقت مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا،اس وقت میری نظر صرف تیری محبت پر تھی۔ یااللہ! فلاں موقع پر کچھ ناجائز لقمہ میرے سامنے آیا تھا، میں نے وہ لقمہ تیری وجہ سے چھوڑ دیا تھاحالانکہ مجھے اس وقت بھوک بھی بہت شدید لگی ہوئی تھی۔ اے اللہ! میری نظریں کبھی حرام کیلئے نہیں اٹھیں۔ میں نے اپنا سرصرف تیری رضا کے لیےجھکایا تھا۔ اللہ یہاں اردگرد پانی ہے، یہاں میراکوئی بھی نہیں ہے ،اے اللہ مجھے یہ کشتی سے اتار تو نہیں سکتے ،مجھے کشتی سے پھینک تو نہیں سکتے لیکن جب کنارے پر پہنچیں گے تو میرا گریبان ضرورپکڑیں گےاور اے میرے اللہ !میرے ساتھ تیرے نام کی محبت ہے۔ لوگ مجھے ولی اور درویش کہتے ہیں۔ یااللہ مجھے آج کی ذلت سے بچا لے ، اس طرح اللہ سے باتیں کرنا شروع کیں اور اللہ سے راز و نیاز شروع کیا۔روایات میں آتا ہے کہ سمندر کی مچھلیاں اپنے منہ میں دینار لے کر کشتی کے چاروں طرف سے پانی کی سطح پر آ گئیں اور ہر مچھلی کی یہ خواہش تھی کہ مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ میرا دینار لے لیں۔
احسانات گنواؤ: میرے شیخ حضرت سید محمد عبداللہ ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے :اللہ جل شانہ ٗکو اس کے احسانات گنوائو کہ یا اللہ تو نے تو یونس علیہ السلام پر اتنا احسان کیا کہ ان کو مچھلی کے پیٹ سے نکال دیا تھا۔یا اللہ ایوب علیہ السلام کی بیماری سے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہیں تھی، الٰہی تو
نے انہیں صحت یاب کر دیا تھا۔ اللہ تونے نوح علیہ السلام کو سمندر کے طوفان سے بچا دیا تھا ۔موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے لشکر سے بچا دیا تھا۔ الٰہی غار کےدہانے پر مکڑی کو کس نے کہا تھا کہ جالا تان ؟اللہ غار کے دہانے پرکبوتری کو کس نے حکم دیا تھا کہ انڈے دے۔اے اللہ میں وہ تو نہیں ہوں لیکن تیرے حبیبﷺ کا ادنیٰ امتی ہوں جس طرح تو نے ان سے محبت کی تھی اورجس طرح تو نے ان کی مدد کی تھی،اے میرے اللہ آج میری مدد کو آ جا۔ اللہ آج میری مدد کر دے۔ اللہ آج مجھے اس مشکل سے نکال دے ۔اللہ مجھے اس پریشانی سے نجات دے۔خط میں وہ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’رقم گم ہونے کی وجہ سے میں اللہ سے زاریاں کرنے لگ گیا اور اللہ سے باتیں کرنا شرو ع کر دیںکہ اللہ تو نے مجھے لاکھوں کروڑوںکا امین بنایا ہے اور مجھے ان لٹے ہوئے بے گھرگھرانوں کی سرپرستی کرنے کی سعادت بخشی ہے۔ یااللہ یہ اُجڑے ہوئے گھرانے ہیں جن کا سب کچھ ختم ہو گیا،یااللہ میں نے تیرے بندوں کے ساتھ کوئی طمع نفسانی نہیں رکھی۔ اپنی خواہشات کو کبھی پورا نہیں کیا۔انشاء اللہ ان بے گھروں کی امانت ان تک پوری لوٹائونگا۔
ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کی فقیری: ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے بادشاہت چھوڑی، ملک چھوڑا، مال چھوڑا، نسل درنسل ان کی خاندانی حکومت چلی آ رہی تھی جیسے شاہِ ایران کی خاندانی حکومت تھی اور شاہ ایران سے تقدیر نے اقتدار چھینا اور ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے کاتب تقدیر کیلئے اقتدار چھوڑا۔ ایک دفعہ دریا کے کنارے دھوپ میں بیٹھے اپنی سوئی سے اپنے کُرتے کو سی رہے تھے۔ ایک وزیر کو خیال آیا ہمارے بادشاہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے بادشاہت چھوڑی ہے ،ذراان کا حال تو دیکھیں کہ کس حال میںہیں؟ آئے دیکھا فقر و فاقہ، تنگ دستی، مفلسی اور غربت ‘ عجیب حال ہے ۔وزیرکہنے لگے:’’ آپ نے یہ کیا حال بنا لیا ہے؟ آپ کی تو آبائو اجداد کی حکومت تھی، بڑی سلطنت تھی، سب کچھ چھوڑ دیا ،یہ آپ کو کیا ہوا؟‘‘ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے سر جھکایا ہوا تھا سر اٹھا کر کہنے لگے:’’ میں نے چھوٹی حکومت چھوڑی اب اللہ نے مجھے اس سے بڑی حکومت دے دی۔‘‘ وہ وزیر کہنے لگاکہ ’’یہ کیسی حکومت ہے ؟آپ کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں اورآپ خود سوئی سے اپنے کپڑے سی رہے ہیںاور دھوپ میں دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں ، غربت او رفقر و فاقہ آپ کے لباس سے عیاں ہے۔پہلے توآپ زرق برق لباس میں ہوتے تھے ۔تاج وتخت آپ کے زیرنگیں ہوتے تھے۔ لوگ آ کرآپ کو فرشی سلام کیا کرتے تھے ،آپ اپنی آنکھ کے اشارے سے معاف کر دیتے تھے اور جسے چاہتے تہہ خانے میں قید کر دیتے تھے۔ وہ حکومت تھی ۔ وہ اقتدار تھا۔یہ آپ کیاکہتے ہیں کہ میںنے چھوٹے اقتدارکو چھوڑ کر بڑے اقتدارکو لے لیا ہے ۔یہ کیا ہے؟
ظاہر ی چکاچوند کے مارے: بعض لوگ فقیروں کے ساتھ چہرے کی آنکھوں کو لے کرچلتے ہیں اور جب چہرے کی آنکھوں سے انہیںکچھ نظر نہیں آتا توپھر اپنی مرضی کے فتوے لگا دیتے ہیں۔ چہرے کی آنکھیںکچھ نہیں ہوتیں‘ دل کی آنکھیں اللہ سے مانگنی چاہئیں ۔چہرے کی آنکھیں تو تجھے وہ دکھا دیتی ہیں جو بعض اوقات بندہ بعد میں خود کہتا ہے کہ ارے۔۔!!مجھے تو غلط فہمی ہوئی تھی ۔میں نے دیکھا کیا تھا؟ ہوا کیا ہے ؟اور دل کی آنکھیں کبھی تجھے دھوکا نہیں دیں گی اوروہ دل کی آنکھیں تجھے فقیروں سے ملیں گی۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں