اس کے بعد ان کی چارپائیاں ہلائی جانے لگیں اور گھر میں آگ لگنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ گھر کے سربراہ نے کسی عامل سے ملنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ وہ گدھا گاڑی پر گئے اور چند میل کے فاصلے سے ایک عامل کو ساتھ گھر لے آئے۔
سلطان عمران
یہ واقعہ گجرات سے چھ کلومیٹر جنوب کی طرف واقع ایک گاؤں کا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں دو سو کے قریب گھر ہوں گے اور یہاں کے رہنے والوں کی ا کثریت زراعت سے وابستہ ہے یہ لوگ غریب اور ان پڑھ مگر انتہائی محنتی ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے کا ذکر ہے۔ اسی گاؤں کے ایک مکان میں رہنے والوں کو عجیب وغریب حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک رات جب سب گھر والے سورہے تھے۔ بیرونی دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا جانے لگا۔ گھر کے سبھی افراد جاگ چکے تھے اور حیران تھے کہ آدھی رات کے وقت کون ہے جو دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ اس گھر کا سربراہ جو چاچا ننھا کے نام سے مشہور تھوڑا بہت حکمت کاکام بھی کرتا تھا‘ چنانچہ یہ سوچ کر کہ کوئی بیمار ہوگا باہر کا دروازہ کھولا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ دروازے پر کوئی نہیں تھا اور گلی بھی سنسان پڑی تھی۔ اس نے آواز دی کہ کون ہے مگر کوئی جواب نہ آیا۔ پہلے تو وہ پریشان ہوا پھر یہ سوچ کر کہ شاید کسی نے غلطی سے دروازہ کھٹکھٹا دیا ہوگا۔ واپس آکر بستر میں لیٹ گیا۔ اس کی بیوی نے پوچھا کہ کون تھا تو چاچا ننھے نے جواب دیا کہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا معلوم نہیں کس نے کھٹکھٹایا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دروازہ ایک بار پھر کھٹکھٹایا جانے لگا اور اس بار شدت پہلے سے زیادہ تھی۔ اس بار ننھے کی بیوی اور بیٹا بھی ساتھ آئے۔ دروازہ کھولا گیا لیکن پہلے کی طرح اب بھی وہاں کوئی ذی روح موجود نہ تھا۔ وہ لوگ پریشان ہوگئے کہ نظر تو کوئی نہیں آرہا۔ ننھا اور اس کا بیٹا لاٹھیاں لے کر گلی میں آگئے مگر انہیں وہاں کوئی بھی نظر نہ آیا۔ وہ لوگ دوبارہ آکر بستروں میں لیٹ گئے تو دروازہ ایک بار پھر زور سے کھٹکھٹایا جانے لگا۔ سبھی بہت پریشان تھے۔ دروازہ مسلسل کھٹکھٹایا جاتا رہا لیکن اس کے بعد گھر والوں نے باہر جاکر دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ گھر والوں کی نیند اڑچکی تھی۔ یہ سلسلہ صبح تک جاری رہا جونہی مولوی صاحب نے فجر کی اذان دینا شروع کی دروازے کا کھٹکھٹایا جانا بند ہوگیا۔
اگلے روز پھر آدھی رات کے بعد دروازہ کھٹکھٹایا جانے لگا۔ گھر والے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے لیکن کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ تھوری دیر کے بعد یوں محسوس ہوا کہ دروازہ کسی ٹھوس چیز سے کھٹکھٹایا جارہا ہے جیسے کوئی پتھر یا اینٹ۔ اس خوف سے کہ لکڑی کا دروازہ ٹوٹ نہ جائے گھر والوں نےدروازہ کھولا‘ لالٹین کی روشنی میں‘ انہوں نے ادھر اُدھر دیکھا مگر کوئی دکھائی نہ دیا مگر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دروازہ پر جگہ جگہ اینٹ کے نشانات تھے۔تیسری رات نہ صرف دروازہ پہلے سے زیادہ زور سے کھٹکھٹایا گیا بلکہ باہر سےآوازیں بھی آنا شروع ہوگئیں۔پہلے ایک ایسے شخص کی آواز آئی جو بہت زیادہ تکلیف میں ہو۔ اس کے بعد کسی کے کھانسنے کی آواز کافی دیر تک آتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد چیخوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ پہلے کی طرح اس رات بھی اذان فجر تک شوروغل کا سلسلہ جاری رہا۔ گھر والے خوفزدہ ہوگئے۔ ڈر کے مارے انہوں نے کسی سے اس کا ذکر بھی نہ کیا کہ لوگ مذاق اڑائیں گے۔
چوتھی رات معاملہ اس سے آگے بڑھ گیا اور دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانے کے بعد چیخوں کے ساتھ ساتھ ایسی آوازیں بھی آنے لگیں جیسے کوئی ان کے صحن میں پتھر پھینک رہا ہو۔ صبح اٹھ کر گھر والوں نے دیکھا کہ صحن میں چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ڈھیر لگے اور دروازے پر اینٹوں سے بجائے جانے کے نشان تھے۔ پھر اس گھر کی خاتون کی پڑوس میں جاکر باتوں باتوں میں یہ انداز لگانے کی کوشش کی کہ انہیں رات کے وقت جو آوازیں آتی ہیں وہ پڑوسی بھی سنتے ہیں یا نہیں اور اگر سنتے ہیں تو ان کی مدد کو کیوں نہیں آتے؟ انہیں معلوم ہوا کہ پڑوس والے ان سے بے خبر ہیں‘ انہیں کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آتی۔
اس کے بعد ان کی چارپائیاں ہلائی جانے لگیں اور گھر میں آگ لگنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ گھر کے سربراہ نے کسی عامل سے ملنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ وہ گدھا گاڑی پر گئے اور چند میل کے فاصلے سے ایک عامل کو ساتھ گھر لے آئے۔
عامل نے ان کے پورے گھر کا جائزہ لیا‘ اس دوران وہ زیرلب کچھ پڑھتا رہا‘ پھر اس نے پوچھا کہ انہوں نے بند کمرے کی صفائی تو نہیں کی۔ گھر والوں نے بتایا کہ ان کے گھر کا ایک کمرہ عرصے سے خالی پڑا تھا اور انہوں نے کچھ ہی عرصے پہلے اس کی صفائی کی تھی ۔
عامل نے بتایا کہ اس کمرے میں جن رہتے تھے‘ آپ لوگوں نے نادانستگی میں ان کی بہت سی چیزیں بھی ادھر اُدھر کردی ہیں جس کی وجہ سے جن بہت ناراض ہیں اور دروازہ کھٹکھٹایا جانا اس ناراضگی کا اظہار ہے۔ عامل نے انہیں مخصوص تعداد میں سورۂ یٰسین اور آیت کریمہ پڑھنے کا بتایا اور کہا کہ آئندہ اس کمرے کا رخ نہ کیجئے گا۔ گھر والوں نے عامل کے مشورے کے مطابق عمل کیا جس کے نتیجے میں ان کے ساتھ پراسرار واقعات پیش آنا بند ہوگئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں