دراصل شادی سے پہلے محبت کا جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی غلط باتوں کو بھی برداشت کرلیتے ہیں اور خامیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں ہر فریق اپنا اچھا تاثر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک دوسرے سے بہت توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں
مسز زبیر‘لاہور
محبت ایک خوبصورت جذبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس نے محبت نہیں کی وہ گویا زندگی کے ایک دلکش احساس سے محروم رہ گیا۔ ہم اپنے والدین سے بھی محبت کرتے ہیں‘ دوستوں اور بہن بھائیوں سے محبت ہوتی ہے لیکن یہاں ہم میاں بیوی کے مضبوط رشتے اور ان کے درمیان الفت محبت کا ذکر کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو ذہنی‘ جسمانی اور روحانی طور پر سب سے زیادہ قریب تر ہوتا ہے اور اگر ان کے تعلقات خوشگوار ہیں تو پورا گھرانہ خوشحال رہے گا۔
زندگی ان قصے‘ کہانیوں‘ فلموں یا ڈراموں کی طرح نہیں ہے جس میں ایک لڑکا اور لڑکی محبت کرتے ہیں پھر ان کی شادی ہوجاتی ہے اور زندگی ہنسی خوشی گزرنے لگتی ہے بلکہ زندگی دراصل اُتار چڑھاؤ کا نام ہے اس میں خوشیاں بھی ملتی ہیں اور دکھ بھی جھیلنے پڑتے ہیں اور اچھے برے حالات کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح شادی کے بعد تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ آتا ہے کبھی یہ تعلق بہت مضبوط اور پراعتماد ہوتا ہے اور کبھی گزرتے وقت کے ساتھ اس میں دراڑیں بھی پڑجاتی ہیں۔ محض ساتھ ساتھ رہنے سے ہی قربت کا احساس نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی یہ محبت کا ثبوت ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں زیادہ تر شادی شدہ جوڑے اپنے رشتے سے غیرمطمئن نظر آتے ہیں۔ فریقین کو ایک دوسرے سے کئی شکایات ہوتی ہیں۔ وہ محبت جو شادی سے پہلے اور شادی کے ابتدائی عرصے میں اپنے عروج پر ہوتی ہے آہستہ آہستہ اس میں کمی آتی جاتی ہے اور ایسا تب ہوتا ہے جب فریقین ایک دوسرے سے محبت کرنے میں کاہلی برتنے کے ساتھ ہی زندگی کے دوسرے معاملات کو محبت پر فوقیت دینا شروع کردیتے ہیں حالانکہ محبت ایک گھڑی کی طرح ہوتی ہے جس کو وقتاً فوقتاً چابی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
شادی درحقیقت ایک معاہدہ ہے جس میں میاں بیوی ایک ساتھ رہنے کا عہد کرتے ہیں اور جب وہ لوگ ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے رہنا شروع کرتے ہیں تو آپس کی خوبیاں اور خامیاں بھی سامنے آتی ہیں لہٰذا یہاں برداشت اوردرگزر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ایسا کوئی کام نہ کریں جو آپ کے ساتھی کو ناگوار گزرتا ہو۔ایک 21 سالہ میری دوست کا کہنا ہے کہ’’میرے والدین نے میری شادی سے پہلے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا لیکن شادی کے بعد ان کے تعلقات مثالی رہے ہیں اور آج بھی وہ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ میرے ساتھ بالکل اُلٹ معاملہ ہے کہ میں اور میرا کزن ایک دوسرے سے گزشتہ چار سال سے محبت کرتے تھے پھر والدین کی رضا مندی سے گزشتہ سال ہماری شادی ہوگئی ہے لیکن اب مجھے اس کی بہت سی عادتیں سخت ناگوار گزرتی ہیں اور اس کو بھی مجھ سے شکایات ہیں اور میں سوچتی ہوں کہ ابھی تو ہماری ازدواجی زندگی کی شروعات ہیں اور ہمیں ایک دوسرے میں خامیاں نظر آنے لگی ہیں معلوم نہیں ہماری آئندہ زندگی کے ماہ و سال کس طرح گزریں گے؟
دراصل شادی سے پہلے محبت کا جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی غلط باتوں کو بھی برداشت کرلیتے ہیں اور خامیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں ہر فریق اپنا اچھا تاثر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک دوسرے سے بہت توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں کہ آئندہ زندگی بھی ہم ایسے ہی گزاریں گے اور ہمارا ساتھی ہماری ہر بات مانے گا لیکن شادی کے بعد ذمہ داریاں پڑتی ہیں اور ایک ساتھ رہنے کا موقع ملتا ہے تو ایک دوسرے کی خامیاں کھل کر سامنے آتی ہیں اور خوابوں کے گھروندے ٹوٹ جاتے ہیں۔
میاں بیوی کے تعلقات کو خوشگوار رکھنے کا طریقہ دشوار بھی ہے اور آسان بھی۔ اس کیلئے آپ کو کشادہ دلی اور برداشت سے کام لینا ہوگا۔ اپنی انا کو قربان کرنا آسان نہیں ہے لیکن اگر آپ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنا چاہتی ہیں اور اپنے گھر کو خوشیوں کا گہوارہ بنانا چاہتی ہیں تو ایسا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ویسے تو دونوں فریقین کو ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن ہمارا معاشرہ بالخصوص عورت سے توقع کرتا ہے کہ وہ گھر کی خوشحالی کیلئے قربانیاں دے‘ یہی وجہ ہے کہ جب اس رشتے میں دراڑیں پڑتی ہیں تو قصوروار عورت ہی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ موجودہ دورمیں طلاق کی شرح بڑھ جانے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین کی سوچ اور طرز زندگی میں تبدیلیاں آگئی ہیں۔ پہلے خواتین گھر گرہستی تک ہی محدود تھیں۔ مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا نعرہ بلند نہیں ہوا تھا چنانچہ خواتین بُری بھلی باتیں برداشت کرجاتی تھیں کیونکہ ان کو یہ بات ذہن نشین کرائی گئی ہوتی ہے کہ گھر بسانا ان کی ذمہ داری ہے لہٰذا اس کیلئے وہ اپنے شوہر اور گھر کی دیگر ذمہ داریوں کو بہت توجہ اور محبت سے پورا کرتی تھیں۔ موجودہ دور میں خواتین میں تعلیم کا رجحان بڑھ گیا ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں اور اب بیشتر خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں جو کہ ملازمت بھی کرتی ہیں اور گھریلو امور بھی انجام دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب اپنے آپ کو مردوں کا محکوم نہیں سمجھتی ہیں۔ وہ اپنا کماتی اور کھاتی ہیں۔ اسی لیے وہ یہ توقع کرتی ہیں کہ ان کو برابری کے حقوق ملیں اور گھر کی ذمہ داریوں میں ان کے شوہر بھی ہاتھ بٹائیں لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو تلخیاں جنم لیتی ہیں اور اسی وجہ سے دن بدن طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔
میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے کاموں میں ہاتھ بٹائیں‘ شوہر کو گھر کی ذمہ داریوں کو انجام دینے میں بیوی کا ہاتھ بٹانے سے قطعاً نہیں شرمانا چاہیے۔ ضروری نہیں ہے کہ شوہر جھاڑو پونچھا کرے یا کھانا پکائے بلکہ وہ بچوں کو ہوم ورک کراسکتے ہیں‘ گھر کا سودا سلف لاسکتے ہیں‘ بل وغیرہ جمع کراسکتے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور قربت کا احساس ہوتا ہے۔ بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ گھریلو کام کاج کے علاوہ بھی کچھ وقت صرف اور صرف اپنے شوہر کیلئے مخصوص کردے کیونکہ یہ شوہر کا حق ہے کہ اسکی توجہ اور محبت دی جائے۔ بات چیت کے ذریعے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی بات کو توجہ سے سنیں‘ ہلکا پھلکا ہنسی مذاق کریں‘ اس سے گھریلو ماحول خوشگوار ہوگا۔ محبت اظہار چاہتی ہے صرف دل میں اپنے احساسات کو قید کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ اس کا زبان سے اظہار بھی ضروری ہے تاکہ آپ کے شریک حیات کو معلوم ہو کہ آپ کے دل میں اس کے لیے کیا احساسات ہیں۔میاں بیوی کا رشتہ بہت خوبصورت ہوتا ہے اور اس میں جتنا اعتماد بھروسہ اور مضبوطی ہوگی گھرانہ اتنا ہی خوشحال ہوگا۔ اپنے گھر کی خوشحالی اور پرسکون زندگی گزارنے کیلئے اپنے شریک حیات کو خوش رکھیں اوراپنی محبت کو کمزور نہ پڑنے دیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں