Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست

ماہنامہ عبقری - جنوری 2014

میرے نانا اکیس سال غائب رہے:پرسوں کی بات ہے مجھے عبقری کے ذریعے سےایک خط ملا کہ میں نے جنات کے پیدائشی دوست میں محمد رسول اللہ کے انوکھے کمالات اور پراسرار فائدے پڑھے‘ میں حیران ہوں آپ کے علم پر اور تجربے پر۔ موصوف نے لکھا دراصل بات یہ ہے کہ میرے نانا بہت عرصہ جوگیوں کے پاس رہے‘ میری نانی اماں کہتی ہیں جو کہ ابھی تک زندہ ہیں‘ اور ماشاء اللہ سو سال سے زیادہ کی عمر میں ہیں کہ تیرے نانا پورے اکیس سال گھر سے غائب رہے‘ تین بچوں کے بعد۔ دراصل ایک ہندو جوگی سے ان کی دوستی ہوگئی۔ انوکھے کمالات دکھانے والا جوگی:یہ اس دور کی بات ہے جب تقسیم ہند نہیں ہوئی تھی وہ جوگی لوگوں کو انوکھے کمالات دکھاتا تھا اور بہت شہرت رکھتا تھا دور دور سے راجے‘ مہاراجے‘ رانیاں اور بڑے بڑے رئیس لوگ اس کے پاس آتے تھے اور آکر اس کےکمالات اور کرشمات سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اس کے پاس تو ایسے کمالات تھے کہ وہ چلتے پانی پر چلتا تھا مگر اس کے پاؤں گیلےنہیں ہوتے تھے‘ لوہے کو ہاتھ لگاتے ہی اس کو ایسے مسل دیتا تھا جیسے مٹی کے ڈھیلے کو اور پتھر اپنی دونوں ہتھیلیوں میں ایسے رگڑتا تو پتھر پس جاتا تھا۔ وہ آنکھوں سے ایسے تھوڑی سی دیر اگر کسی پرندے کو دیکھتا تو پرندہ نیچے گر کر تڑپنے لگ جاتا‘ جانور کو دیکھتا جانور گر کر پھڑکنے لگ جاتا کئی بار تو اس نے خود کہا اب اس جانور کو فوراً چھری پھیر کر حلال کردو کیونکہ اس نے اب بچنا نہیں ہے میری نظروں سے اس کا دل پھٹ گیا ہے۔میرے نانا کا جوگی سے لگاؤ:اس کی نظریں تھیں یا تیر تھا یہ آج تک کوئی معلوم نہ کرسکا اللہ پاک نے اس کو بہت کمال اور جلال دیا تھا۔ لوگ اس ہندو جوگی کے بارے میں انوکھے خیالات رکھتے تھے‘ کوئی کہتا تھا اس کے پاس سومنات کا جادو ہے‘ کوئی کہتا تھا کہ کالی دیوی اس پر فدا ہے‘ کوئی کہتا کہ اس نے کسی تاریخی اور گہرے غار میں گیارہ سال چلہ کیا ہے کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔۔۔ جب اس سے پوچھتے وہ بات ٹال جاتا اور خاموش ہوجاتا چونکہ میرے نانا کو بقول میری نانی اماں کے ان پراسرار چیزوں سے لگاؤ تھا۔ اس نے اس جوگی کی خدمت کرنا شروع کردی‘ آنا جانا شروع کردیا‘ دن رات اسی کے پاس رہتا اور اسی کی خدمت کرتا۔ اسی کے آستانے کی جھاڑو پانی بھرتا‘ اس کا بھوجن یعنی کھانا وغیرہ تیار کرتا حتیٰ کہ اس کے آنے والے مہمانوں کی بھی خوب سیوہ اور خدمت کرتا۔ یہ خدمت اور سیوہ چلتی رہی۔میرے نانا کی جوگی کے ساتھ روانگی: ایک دن اچانک جوگی کہنے لگا اب ہمارا اس دیس سے دل بھرگیا ہے ہم یہاں سے فوری طور پرجانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اجازت دو۔ میرے نانا جوان تھے اور وہ جوگی بڑھاپے میں پہنچ چکا تھا لیکن دل ایسا لگا کہ کہنے لگے جہاں آپ وہاںمیں۔ الغرض میرا نانا گھر آیا اور اپنی نانی کو کہا کہ میں بس تھوڑے عرصے میں آجاؤں گا اور یوں نانی اور بچوں کو روتا چھوڑکر چیلا بن کر اس کے ساتھ ہوگیا۔ ہفتے گزر گئے‘ مہینے گزر گئے‘ سال بیت گئے‘ میرے نانا نہ آئے۔ حتیٰ کہ نانی رو دھو کر صبر کرگئی کہ شاید کہیں مرگئے‘ قتل ہوگئے‘ اغوا ہوگئے‘ ان کی زندگی کا چراغ ڈوب گیا ظاہر ہے نہ اطلاع‘ نہ پتہ‘ نہ خبر۔ اکیس سال بعد واپسی: اکیس سال کے بعد اچانک ایک دن دروازہ کھٹکھٹایا نانی نے پوچھا کون؟ اپنا نام بتایا تو میری نانی کو یقین نہ آیا اس نے دروازہ نہ کھولا کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی غیر آدمی میرے گھر میں آجائے جب میرے نانانے دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا دو چار محلے کے لوگ آگئے کچھ لوگوں نے میرے نانا کو پہچان لیا اور یوں گھر کا دروازہ کھلا ۔شیرخوار بچے جوان ہوگئے تھے‘ اولادیں بڑی ہوگئی تھیں۔ اولاد نے تو اپنے والد کو نہ پہنچا لیکن جوان بیوی نے ڈوبتے سائے میں اپنے شوہر کو پہچانا‘ آنکھیں بچھائیں۔ شوہر کی شکل یہ تھی کہ اس کی مونچھیں لمبی‘ ڈاڑھی بڑھی‘ بال بہت بے ہنگم بڑھے ہوئے تھے۔ جوگیوں جیسا لباس اور ہاتھ میں بہت بڑا کشکول اور ڈنڈا تھا۔ میری نانی نے سمجھا شاید میرا نانا ہندو ہوگیا ہے۔پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور مسلمان: جس وقت میرا نانا آیا قریب ہی عصر کی نماز کا وقت ہوا مسجد میں اذان کی آواز آئی سپیکر ہوتے نہیں تھےمؤذن اونچی آواز میں اذان دیتے تھے۔ میرا نانا فوراً وضو کی طرف لپکا نانی دیکھ کر حیران ہوئی اور نانی نے دبے لفظوں میں سوال کیا فلاں کے ابا آپ مسلمان ہیں ؟نانا حیرت سے کہنے لگا جس مسلمانی میں میں تجھے چھوڑ کر گیا تھا اس سے کہیں زیادہ طاقتور مسلمان ہوں۔نماز مسجد میںپڑھ کر آئے اور ہاتھ میں تسبیح پھیرتے رہے۔ رات بیتی تو رات کے آخری پہر میں اٹھے‘ وضو کیا تہجد پڑھی‘ اور اپنی بڑی سی لکڑی کی تسبیح جو ہروقت گلے میںڈال کر رکھتے تھے وہ مسلسل پھیرتے رہے اور پھیرتے رہے یوں فجر کی نماز پڑھی۔گھر کا نظام کیسے چلے گا؟:اب نانی کو فکر لاحق ہوئی کہ یہ شخص کمانے کے قابل تو رہا نہیں کیسے حالات ہوں گے؟ ادھر اولاد جوان ہوگئی‘ ان کی شادی کرنی ہے۔ نانی بیچاری نے گھر میں ساری عمر رضائیاں سی‘ کپڑوں کی سلائی کی‘ ہاتھ سے بنی ہوئی پہلے دور میں ویسکوٹ ہوتی تھی وہ بنائی الغرض جو بھی کم سے کم پیشہ آیا اس نے کرکے بچوںکو پالا۔ ایک بیٹا برسر روز گار تھا جو گھر کے نظام کو چلانےمیںمعاون تھا۔ چند دنوں کے بعد نانی نانا ابا سےکہنے لگی کہ فلاںکےابا بیٹوں کی شادیاں سر پر ہیں اور آپ دن رات اپنی عبادتوں میں لگے ہوئے ہیں کوئی اس کا بھی فکر کرو نانا ابا کہنے لگا بھلا ہو تیرا اس کا فکر نہ کرنا یہ سب کام ہوجائے گا۔ جب بھی نانی اماں یہ بات کہتیں نانا ابا یہ بات کہہ کر نانی اماں کو مطمئن کردیتے۔ اکیس سال کی آپ بیتی کہانی نانا کی زبانی:ایک دن نانی اماںکہنے لگی اکیس سال کے حالات نہ میں نے پوچھے نہ آپ نے بتائے۔ کچھ بتاؤ تو سہی ہوا کیا؟ نانا ابا نے ٹھنڈی سانس بھری‘ آسمان کو گھورتے ہوئے اپنی دھیمی آواز میں اپنی کہانی شروع کی۔ جو مختصر علامہ صاحب میں آپ کو لکھ رہا ہوں:۔وہ کہانی یہ تھی کہ مجھے اس جوگی سے محبت ہوگئی‘ اس جوگی کےکمالات کرشمات اور کرامات دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ مجھے بھی ان کرمات دیکھنے کا شوق پیدا ہوا باقی چیزیں تو میں نے دیکھی تھیں لیکن ایک د فعہ جو جھٹکا مجھے لگا وہ یہ کہ ایک دفعہ میں جوگی کو اپنے والد کی قبر پر لے کرگیا۔ والد کے ہاتھوں پلا تھا‘ جوانی ہی میں والد فوت ہوئے تھے۔ والد کی عادات اطوار مزاج اور آواز کو خوب سمجھتا تھا۔مرحوم والد سے ملاقات: میں نے اپنے والد کے بارے میں اس سے کہا کیا میرے والد سے میری ملاقات ہوسکتی ہے؟ جوگی ہنس کر کہنے لگا یہ کون سی مشکل بات ہے۔ جوگی نے بیٹھ کر اپنی مالا یعنی تسبیح کو پھیرا تھوڑی ہی دیر میں میرے والد نے مجھے سلام کیا میں حیران ہوگیا بالکل وہی آواز ‘وہی لہجہ میں نے اپنے والد سےحال احوال پوچھا اور ایک سوال کیا کہ اباجی کیا حال ہے؟ آپ کیسے ہیں؟ والد نے کہا بیٹا حال تو میرا اچھا نہیں تھا کچھ زیادہ عبادت نہیں کی‘ تقویٰ اعمال اور طہارت میں میں آگے نہیں تھا لیکن تیرا جوگی کے پاس جانا مجھے بچا گیا۔ میں حیران ہوگیا جوگی کے پاس جانا۔۔۔؟؟؟ تیرے اس لفظ نے میری مغفرت کرادی:میں نے والد سے پوچھا کہ ابا جان جوگی کے پاس جانا کیسے بچا گیا؟ کہا بیٹا اس جوگی نے تجھے جس لفظ پر لگایا ہے وہ لفظ جتنا تو پڑھتا گیا اتنا مجھے ٹھنڈک ملتی گئی جب لفظ تو لاکھوں سے آگے نکل گیا اس لفظ کی وجہ سے اللہ نے میری مغفرت کردی‘ جنت کا سماں میرے سامنے ہے اور مجھے اللہ پاک نے بہت نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہروقت انگور‘ انار‘ شہد‘ شراب ‘میٹھا پانی‘ ٹھنڈے اور گرم چشمے اور اللہ کی نعمتیں میرے والد نے گنوانا شروع کیں۔ میں والد سے ایسے باتیںکررہا تھا جیسے وہ میرے آمنے سامنے بیٹھے ہوں ان کےوجود کی سراسراہٹ‘ ان کے کپڑوں کے سمٹنے کی آواز حتیٰ کہ ان کے سانسوں کی آوازیں مجھے سنائی دے رہی تھیں۔ میں ایسے محسوس کررہا تھا جیسا میرا والد میرے سامنے بیٹھا ہے اور محسوس کررہا تھا یہ حقیقت تھی لیکن مجھے ان کا وجود نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے کہا ابا جان آپ مجھےنظر نہیں آتے میں سب کچھ محسوس کررہا ہوں تو ابا جان مسکرا کرکہنے لگے بیٹا نظر آنے والےجہان سے میں نکل آیا تھوڑی دیر بعد والد کو میں نے سلام کیا۔ میں نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو مجھے ہوا کی سرسراہٹ ہاتھوں میںمحسوس ہوئی۔ جیسے ان کے دونوں ہاتھ میرے ہاتھوں میں آئے تھے میری آنکھوں سے آنسو رواں دواں تھے وہ آنسو والد کی یاد کے ‘وہ آنسو والد کی جدائی کے وہ آنسو اس حیرت زدہ مقام کے۔ میں حیران اور پریشان جب یہ سارا معاملہ ختم ہوا تو میں نے جوگی کا مسکراتا چہرہ دیکھا کہنے لگے بیٹا خوش ہو‘ میں نے کہا بہت خوش۔ہندو جوگی کی خفیہ نمازیں اور روزے:بس یہ واقعہ ایسا تھا جس نے مجھے جوگی کا غلام‘ چیلا اور دیوانہ بنا دیا۔میں مستانہ وار دن رات اس کی خدمت کرتا رہا جب وہ یہاں سے جانے کا عزم لیکر نکلا۔ یعنی (ننکانہ صاحب) تو میں بھی ساتھ ہولیا‘ ہم قریہ قریہ سفر کرتے رہے لوگ جوگی کےکمالات دیکھ کر حیران ہوتے تھے جوگی خفیہ نماز بھی پڑھتا‘ روزے پورے رکھتا تھا‘ بلکہ نفلی روزے رکھتا تھا‘ تہجد پڑھتا جو وہ کرتا وہ میں کرتا‘ پاکیزگی اور صفائی کا بہت خیال رکھتا‘ گناہوں سے خود بچتا مجھے بچاتا‘ حرام سے خود بچتا مجھے بچاتا اب کہنے میں بظاہر وہ ہندو جوگی تھا لیکن اندر سے وہ ایک اعلیٰ درجے کا ولی تھا بلکہ ولایت سے بھی کسی اونچے مقام پر تھا۔ بادشاہ ہماری خدمت کرتے اور نواب آنکھیں بچھاتے: میں سالہا سال اس کے ساتھ سفر کرتا رہا اس نے مجھے جو ذکر بتایا سارا دن وہ ذکر کرتا اس کی خدمت کرتا‘ اس ذکر کی برکت سے اچھے کھانےملتے‘ اچھی رہائش ملتی‘ پرسکون نیند‘ پرسکون زندگی ملتی حتیٰ کہ میرے اندر گھر کا خیال اور گمان تک ختم ہوگیا۔ بادشاہ ہماری خدمت کرتے‘ نواب ہمارے قدموں میں آنکھیں بچھاتے‘ ہر شخص ہماری سیوہ کرتا۔ جوگی کی لازوال نصیحت: جوگی نے مجھے بس ایک نصیحت کی تھی نہ چوری کرنا‘ نہ کوئی چیز جمع کرنا‘ بس جتنا ہے استعمال کرو باقی چھوڑو‘ کل جو تسبیح پڑھتے ہیں اس کی برکت سے پھر ملے گا اور یہی ہوتا تھا ہم تسبیح پرھتے اور بس گمان اور خیال کرتے اور ہمارے گمان اور خیال سے وہ مل جاتا جو شاید کسی کو نہ ملا۔ جوگی کا آخری وقت‘ عجب منظر‘ عجب جنازہ:چلتے چلاتے ہم صوبہ بہار کے آخری کونے میں جنگلوں میں نکل گئے آگے بہت بڑے پہاڑ تھے مٹی اور پتھر کے ملے ہوئے ان غاروں میں ہم نے قیام کیا۔ سالہا سال گزر گئے ایک دن صبح تہجد کے وقت بابا جی مجھے کہنے لگے بیٹا اب میرا وقت آخیر ہے! آج مغرب کی نماز کے بعد میں فوت ہوجاؤں گا۔ دیکھ یہاں قریب سے مسلمانوں کو اکٹھا کرلینا تم نہ بھی کرنا تو خود ہی آجائیں گے‘ مجھے غسل دینا‘ میرا جنازہ پڑھنا اور یہی کہیں مجھے دفن کردینا۔ کفن کا فکر نہ کرنا وہ خودبخود کوئی لے آئے گا‘ قبر کھودنے کیلئے پریشان نہ ہونا اس کےکھودنے والے بھی آجائیں گے۔ میں سن کر حیران ہوا میں نے سوال کیا کہاں سے آئے گے؟ کہا جو لفظ تجھے سکھا کر جارہا ہوں اس لفظ کو پڑھو گے سب کچھ ہوجائے گا۔ میں رونےلگ گیا ان کے پاؤں سےلپٹ گیا اٹھائیس سال کا ساتھ تھا اب وہ جدائی کا وقت آگیا‘ سارا دن بابا نے نہ کچھ کھایا نہ پیا بس مجھےنصیحتیں کرتے رہے اور اس عمل کے بارے میں بتاتے رہے باقی وقت انہوں نے عبادت میں گزارا غسل کیا نہانے دھوئے جسم کو صاف کیا ۔ بابا کی مجھے آخری وصیت:اور مجھے ان باتوںمیں ایک بات یہ فرمائی کہ دیکھ مجھے دفن کرنے کے بعد تم نے یہاں نہیں رہنا واپس اپنےو طن( ننکانہ صاحب )جانا ہے۔ تیری اولاد جوان ہوگئی ہے‘ تیری بیوی اپنی ڈھلتی عمر میں تیرا انتظار بھی ختم کربیٹھی ہے اور اولاد کی جوانی میں مسائل کیلئے پریشان نہ ہونا تجھے یہی وظیفہ ہر قدم پر ساتھ دے گا اور یہی وظیفہ ہر قدم پر تجھے مشکلات میں منزل دے گا۔ اپنی زندگی کو پریشان ہونے سے بچانا۔ جوگی بابا کی آخری نمازاور لمبی دعا:مغرب کی نماز بابا جی نے پڑھی نماز کے بعد وہ مسلسل نوافل پڑھتے رہے‘ نوفل پڑھنے کے بعد لمبی دعا مانگی کیا مانگتے رہے بس میں آمین کہتا رہا اس کے بعد مجھے گلے لگایا ان کے آنسو نکل گئے۔مسلسل کلمہ پڑھا استغفار کیا اور پھر اپنا وظیفہ پڑھنا شروع کردیا اور مجھے روتا سسکتا چھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کرگئے۔میں نے ان کے انگوٹھے باندھے ان کے ہاتھ سیدھے کیے ان کی آنکھیں اور منہ باندھنے کی اور بند کرنے کی مجھے ضرورت نہ پڑی وہ خود بخود اپنی اچھی اور اصلی حالت پر آگئے۔ ان کا چہرہ خودبخود دائیں طرف مڑگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگ آنا شروع ہوگئے‘ میں نے اپنا وظیفہ ان کی سانسوں کے بعد پڑھنا شروع کردیا تھا‘ ویسے بھی ہر سانس وہی پڑھتا رہتا تھا الغرض قبر کھودی گئی‘ غسل دیا گیا لوگوں کا ہجوم تھا ان کے جنازے پر‘ کچھ لوگ میرے لیے کھانے پینے کا سامان لے آئے۔ کچھ لوگ میرے پاس رقم لے آئے‘ کچھ کپڑے لے آئے‘ ایک بہترین گھوڑا بھی مجھے دے گئے‘ جوگی کو دفن کرکے میں بہت دیر ان کی قبر پر بیٹھا رہا اور روتا رہا اور اپنا وظیفہ پڑھتا رہا جب میں نے سر اٹھایا تو کوئی ایک بھی نہیں تھا گھوڑا اور سامان موجودتھا۔ بابا کی قبر اور جدائی سے میرا بُرا حال:میرا دل وہاں سے ہٹنے کو نہیں چاہتاتھا لیکن حکم یہی تھا میں کیا کرتا؟ ٹوٹے قدموں کے ساتھ اٹھا پھر قبر پر بیٹھ گیا اور قبر کو لپٹ کر رویا لیکن میرے دل کے اندر سے ایک آواز آرہی تھی جو ہمارا حکم ہے اس کو مانو اور اپنی بیوی بچوں کے پاس جاؤ میں پھر اٹھتا پھر ان کی قبر پر گر جاتا اور لپٹ جاتا۔ ایسا کئی بار ہوا اور ہر بار میرے دل میں یہی آواز آتی تھی اب تم جاؤ تمہاری اگلی ڈیوٹی شروع ہونے والی ہے۔روتا‘ہچکچاتا سسکتا گھوڑے پر بیٹھا اپنا سامان ساتھ لیا کئی دنوں کے سفر کے بعد اب میں گھر پہنچا ہوں‘ بس اکیس سال کی میری یہی کہانی ہے اور یہ اکیس سال کی اپنی داستان کو اتنی ہی دیر میں سمو دیا ہے۔ وظیفہ اور بچوں کی آناً فاناًشادیاں:اللہ کی بندی پریشان نہ ہو اولاد کی شادیاں ہوجائیں گی‘ بس تو بھی دن رات یہی وظیفہ پڑھ اور میرے نانا نے اب میری نانی کو بھی یہی وظیفہ بتا دیا اور واقعی ایسا ہی ہوا ابھی میرے نانا کو آئے ہوئے تقریباً چار ہفتے ہی ہوئے تھے رشتے آنا شروع ہوگئے شادی کے اسباب بننا شروع ہوگئے‘ اور تینوں کی شادی ایسے آنا فاناً ہوگئی کہ حیرت انگیز ان میں میری والدہ بھی تھیں ۔ (جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 294 reviews.