گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک تحقیق‘ جو جرمنی‘ فرانس اور آسٹریلیا کے دریاؤں اور چشموں کے پانیوں پر کی گئی‘ میں بتایا گیا کہ حشرات کش ادویہ پانی میں موجود آبی کیڑے مکوڑوں اور چھوٹی آبی حیات کو تقریباً 42فیصد ختم کردیتی ہے۔
یہ تحقیق ہیلم ہولٹز ہولٹز ایسوسی ایشن اوف جرمن ریسرچ سینٹرز (Helmholtz Association of German Research Centres) کا حصہ ہے جو کم اور زیادہ آلودہ پانی پر علاقائی حیاتی تنوع ( Regional bio-diversity)کے اثرات کے تناظر میں کی گئی اور امریکہ کے نیشنل اکیڈمی اوف سائنسز (National Academy of Sciences) کے جریدے میں شائع ہوئی ہے۔اس تحقیق میں، کم آلودہ علاقوں کی بنست زیادہ آلودہ علاقوں، جہاں جراثیم کش ادویہ زیادہ استعمال کی گئی تھیں پر کام کیا گیا جس سے پتہ چلا کہیورپ میں بتالیس فیصد اور آسٹریلیا میں ستائیس فیصد چھوٹی آبی حیات وہاں کے پانی میں معدوم تھی۔ تحقیق مطالعہ میں جراثیم کش ادویہ (Insecticides) اوردافع فُطر ادویہ (Fungicides)، ایک کیمیائی عامل جو پھپھوندی کو ختم کردیتا ہے یا اس کی بازغوئی کو روک دیتا ہے، پر تحقیق کی گئی جو زراعت میں استعمال ہوتی ہیں۔ محققین کے مطابق اس کا قدرتی علاج بارش ہے‘ بارش کا پانی ان ادویہ کے اثرات کو بہت کم کردیتا ہے۔ تاہم ان ادویات کے بے تحاشہ استعمال کو شریک تحقیق متھائس لائز (Mathias Lies) نے موٹروے پر آنکھیں بند کرکے ڈرائیونگ کرنے سے تشبیہ دی ہے۔
جو حشرات خاص طور سے جراثیم کش ادویہ سے متاثر ہوتے ہیں ان میں بھنبھیری یا کابلی مکھی (Dragon fly)، منی مکھی (Mayfly)، کیڈس مکھی (Caddis fly) اور سنگ مکھی (Stonefly) شامل ہیں۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ ادویہ ماحولیاتی تناسب اور حیاتی تنوع (Blodiversity) میں بڑا خلل ڈال رہی ہیں۔ اس مطالعے کے نتیجے میں ماحولیاتی خطرے (Ecological risk) پر غور ہورہا ہے اور اقوام متحدہ نے بھی حیاتی تنوع کے تنزل کو روکنے کیلئے 2020ء تک اس کو اپنا ہدف مقرر کیا ہے۔دراصل قدرت نے کوئی بھی کیڑامکوڑا، حشرات الارض چرند و پرند بیکار پیدا نہیں کیے ہیں۔ ہر ایک کا ایک مقصد ہے اور وہ اپنی حیثیت سے حیاتی تنوع کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
1990ء کی دہائی کی بات ہے کہ چینیوںنے سارے سانپ پکڑ پکڑ کر کھالیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دیہات میں اتنے چوہے ہوگئے کہ انہوں نے ساری فصلوں کو تباہ کردیا۔ مجبور ہوکر چینیوں کو بھارت سے سانپ درآمد کرکے اپنے ملک میں چھوڑنے پڑے۔ سانپ جسے ہم بیکار محض بڑا کیڑا سمجھتے ہیں‘ چوہوں اور اس قسم کے دیگر جانوروں کی پیدائش میں فطری توازن قائم رکھنے میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے۔ پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں ایک شخص کا چڑے کا پلاؤ اور قورمہ پکا کر بیچتا ہے لوگ خوب مزہ لے کر شوق سے کھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک پاکستانی اپنے ایک امریکی دوست کو بھی ساتھ لے گیا۔ اس موقع پر امریکی نے اپنے پاکستانی دوست سے کہا کہ ’’آپ لوگ چڑے پکڑ پکڑ کر کھارہے ہیں آپ کے مچھروں کو کون کھائے گا؟‘‘ ایک چڑیا یا چڑا روزانہ دو سو سے ڈھائی سو مچھروں کو کھاجاتا ہے۔ اڑتے ہوئے ہوا میں ہی ان کا شکار کرلیتے ہیں۔ کراچی میں مچھروں کی بہتات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں درخت کم لگائے گئے ہیں جو ہیں انہیں بھی کاٹ دیا جاتا ہے اور چڑیوں کو بسیرا کرنے کیلئے درخت نہیں ملتے نیز چڑی مار بڑی تعداد میں چڑیوں کو پکڑتے ہیں جس کے نتیجے میں کراچی میں ان کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے۔
دریں اثناء ایک اور تحقیق جو اٹلی میں کی گئی میں بتایا گیا ہے کہ جراثیم کش ادویہ کے ماحول اور ان کے محلول کے قرب میں رہنے سے پارکنسز کے نشوونما پانے کا قوی امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ محققین اس نتیجے پر دنیا بھر کے ایک سو تحقیقی مطالعوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد پہنچے ہیں۔پارکنسنز ایک بتدریج فروغ پانے والی بیماری ہے جو ذہنی انحطاط کا سبب بنتی ہے نتیجتاً انسان کو اپنے جسم کے اعضا اور عضلاتی، بافتوں کی حرکات سکنات پر قابو اور انہیں مربوط رکھنے پر کنٹرول نہیں رہتا۔ اس مرض کی بنا پر ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں پیدا ہونے والا رعشہ یا لرزش بولنے اور لکھنے کی صلاحیتوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ انسان مدد کے بغیر چل پھر بھی نہیں سکتا۔ اس جسمانی تنزلی کا سبب دماغ میں موجود ایک مخصوص محلول ڈوپامائن کی سطح میں کمی کا واقع ہوتا ہے۔ یہ قدرتی محلول ایک واسطے کاکام انجام دیتا ہے جو جسمانی اعضا کے پیغامات دماغ کے ان حصوں میں پہنچاتا ہے جو جسم کی حرکات و سکنات کو مربوط و قابو رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔پارکنسنز بیماری کے اثرات کا تو پتہ لگالیا گیا لیکن یہ تحقیق ہنوز باقی ہے کہ آخر یہ بیماری اچانک کیوں پیدا ہوجاتی ہے اور کیا چیز ہے جو ڈوپامائن محلول کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے؟ کچھ کیسوں کے مطالعاتی تجزئیے سے اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ اس کی وجہ موروثی ہوسکتی ہے یا خلقی۔ ایک رائے یہ بھی ہے جو زیادہ تسلیم کی جارہی ہے کہ اس کو پیدا کرنے میں سوزش والتہاب دماغ کا ایک اہم کردار ہے۔ دوسری رائے جو اٹلی کے محققین نے پیش کی ہے کے مطابق ماحول میں موجودمخصوص مرکبات بھی اس بیماری کی پیدائش کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ دماغ میں التہاب و سوزش پیدا کرتے ہوں گے۔ اس بات سے پہلی رائے کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ڈوپامائن محلول کو دماغ کے مخصوص خلیے جو ڈوپامائنر جک نیورونز (Dopaminergic neurons) کہلاتے ہیں، پیدا کرتے ہیں۔آئی آر سی سی ایس یونیورسٹی ہسپتال سان میٹیو فاؤنڈیشن کے ایمنول سریڈا اور پارکنسز انسٹی ٹیوٹ میلان کے گیانی پذولی نے اپنی دریافتوں کے بارے میں 27 مئی 2013ء کو جریدے نیورولوجی میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک سو چار مربوط مطالعوں جو اس بیماری کے کیسوں کو کنٹرول کرنے پر مشتمل تھے کا گہرا تجزیہ کیا۔ ان کے علم و مشاہدے میں یہ بات آئی کہ جراثیم کش ادویہ اور ان کے محلول کے اثرات سے پارکنسنز بیماری کے پیدا ہونے کا خطرہ موجود ہے۔محققین کے مطابق کھٹمل‘ خس و خاشاک اور حشرات الارض کے خاتمے کیلئے استعمال ہونےو الی ادویہ یا محلول سے لوگوں میں پارکنسز بیماری کے پیدا اور بتدریج فروغ پانے کے 33 سے 80 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ اعلیٰ پیمانے پر کیس کنٹرول اسٹڈیز سے پتہ چلا کہ نبات کش دوا اور پھپھوندی کو ختم کرنے والا کیمیائی مادہ (Fungicide) کا استعمال مرض پارکنسنز کے امکانات کو دو چند کردیتا ہے۔محقق سریڈا (Cereda) کے مطابق جو لوگ زراعت کے پیشے سے منسلک ہیں یا کھیتوں کے قریب رہتے یا کام کرتے ہیں جہاں یہ ادویہ زیادہ استعمال ہوتی ہیں اور وہاں کے کنوؤں کا پانی پیتے ہیں ان میں یہ مرض بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں