حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
سفر سے پہلے انہوں نے لوگوں کو اکٹھا فرمایا کہ وصیت کرنی ہے‘ لوگوں کو خیا ل ہوا کہ عمومی طور پر اسلام نے سفر میں جاتے وقت وصیت کرنے کی جو تعلیم دی ہے حتیٰ کہ بعض روایات میں حالت قیام میں بھی تین راتیں اور ایک روایت میں دو راتیں اس طرح گزارنے والے کو بڑا گنہگار قرار دیا ہے جو اپنے ورثاء کو وصیت نہ کرسکا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وماحق امریٔ مسلم لہ شی ء یوصی فیہ یبیت لیلتین الا ووصیتہ مکتوبۃ عندہ (متفق علیہ)کسی مسلمان کو کوئی وصیت کرنی ہو تو اس کو حق نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کی وہ وصیت تحریری طور پر اس کے پاس موجود نہ ہو۔تو شاید مجدد یقین امیر حضرت مولانا یوسف رحمۃ اللہ علیہ اس عمومی حکم پر عمل کرتے ہوئے سفر میں جاتے وقت وصیت فرمانا چاہتے ہیں‘ مرکز نظام الدین بنگلہ والی مسجد میں لوگ جمع ہوگئے اور حضرت نے باقی لوگوں کو بھی اہتمام سے جمع فرمایا اور مختصر وصیت فرمائی جو اس دور میں دین کاکام کرنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے اور سنہرے حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے‘ دینی تحریکوں اور دینی خدمات سے وابستہ لوگوں میں پیدا ہونے والے اکثر امراض کیلئے نسخہ تریاق ہے جو وصیت آپ نے فرمائی اس کا مفہوم تقریباً یہ تھا:’’سوچو! محاسبہ کرو کہ جو کام تم دین کا کررہے ہو‘ رسماً تو نہیں کررہے ہو‘ عادتاً تو نہیں کررہےہو‘ مجبوراً تو نہیں کررہے ہو‘ نام کیلئے تو نہیں کررہے ہو‘ دام کیلئے تو نہیں کررہے ہو اور تم جو لوگوں کوجوڑ رہے ہو‘ کسی تحریک سے جوڑ رہے ہو‘ کسی تنظیم سے جوڑ رہے ہو‘ کسی ذات خاص سے جوڑ رہے ہو یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ذات سے جوڑ رہے ہو‘‘یہ مختصر اور جامع وصیت فرما کر آپ سفر میں تشریف لے گئے اور پاکستان جاکر اس سفر میں وصال فرمایا‘ بعد میں لوگوں کو احساس ہوا کہ مجدد یقین اور امیر کی یہ وصیت صرف عمومی حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ سفر آخرت پر جاتے وقت اپنے رفقاء کو خصوصاً اور امت مسلمہ اور دینی کام سے وابستہ لوگوں کو عموماً فرما کر گئے ہیں۔
ہم لوگ بہت سی عبادات اور طاعات اور دینی خدمات رسم کے طور پر بھی کرتے ہیں‘ رمضان آئے روزوں کا رواج‘ روزے رکھ لیے‘ بقر عید آئی قربانی کا رواج ہے قربانی کرلی۔ مجبوراً بھی کرتے ہیں‘ کیا کیا جائے ایک ادارے سے وابستہ ہیں‘ تحریک سے جڑے ہوئے ہیں‘ حلیہ اور پہچان بن گئی ہے‘ دینی کام کرنا ہی ہے۔ عادتاً بھی کرتے ہیں‘ نماز کی عادت ہوگئی ہے‘ تسبیح پڑھنے کی عادت ہوگئی ہے‘ اسی طرح دوسری بعض خدمات اور طاعات کی عادت ہے۔ نام کیلئے کرتے ہیں۔ شہرت ہوتی ہے‘ لوگوں میں اعتقاد بڑھتا ہے‘ واہ واہ ہوتی ہے‘ اس لیے خدمت اور عبادت کرتے ہیں۔ دام کیلئے کرتے ہیں کہ کچھ مشاہرہ مل جائے گا‘ لوگ معتقد ہوجائیں گے تو ہدیہ آئیں گے وغیرہ۔۔۔۔اخلاص اور اللہ کی رضا کے متوازی یہ عوامل ہیں جو دینی کاموں پر لگے رہنے پر مجبور کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان عوامل کے اثر سے کوئی کام ہرگز دین دارنہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ ہم لوگ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جوڑنے کے علاوہ تحریکوں‘ تنظیموں اور شخصیات سے جوڑتے ہیں‘ یہ خود ایک طرح سے عدم اخلاص کی علامت ہے۔ یقیناً آج کے حالات میں یہ وصیت لوح قلب پر لکھنے اور اس کے پس منظر میں محاسبے کی ضرورت ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں