ایمان، کلمہ،اسلام، یہ تین وکٹیں ہیں اور شیطان باؤلنگ کرارہا ہے
شیطان اور باباجی:شیطان کی اور انسان کی کشمکش لگی رہے گی اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کامیاب ہوتا ہے؟ ایک بابا جی تھے وہ عجیب مثالیں دیتے تھے اور بڑی عجیب و غریب حرکتیں کرتے تھے۔ میں ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ باباجی ایک شخص کوسمجھانے لگے کہنے لگے :دیکھ! یوں کر، مٹھی بند کی اور مٹھی میں پھونک ماری۔
کہنے لگے: دیکھ شیطان تجھے زور سے ایک مکا مارے گا پھر دوسری مٹھی بند کی اور پھونک ماری اور کہنے لگے: دوسری طرف سے بھی شیطان زور سے مکا مارے گااور تجھے دھکادے گا اور کہے گا: یہ گناہ کرلے، یہ غلطی کرلے… اب بتا!تو شیطان کی مانے گا یا اﷲ کی مانے گا؟۔ اس نے کہا: میں اﷲ کی مانوں گا ۔ کہنے لگے :شیطان تجھے گرادے گا۔ اب وہ بندہ بھی عجیب وغریب تھا اس نے بھی مٹھیاں بھینچیں اور گندی گالیاں دیں کہنے لگا :میں شیطان کو گرادوں گا۔ باباجی نے کہا: ابھی تو تجھے شیطان نے گرادیا… اس نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے: یہ گالیاں دینا ہی تو شیطانی ہے۔ تو یہ کہتا کہ میں اعمال اختیار کروں گااور اﷲ کی ذاتِ عالی کی طرف رجوع کروں گا‘ حضرت محمدﷺ کی زندگی اور محبت کو اختیار کروں گا اس طرح میں شیطان کوگرادوں گا۔ پھر کہنے لگے: دیکھ! اب تیری اور شیطان کی کُشتی ہے اورمیں ہوں ریفری… اب دیکھتا ہوں تو گرتا ہے یا شیطان گرتا ہے۔پھر وہ روزانہ آکے کہتا بابا جی! آج شیطان کوگرا آیا ہوں۔ باباجی پوچھتے :وہ کیسے…؟؟؟
وہ کہتا: فلاں فلاں جگہ ایسے غلط کام ہورہا تھا اب میرے من نے کہا: ایسا کرلے۔ میں نے کہا: نہیں۔ اب میں نے شیطان کو گراناہے اور شیطان کے سینے پہ بیٹھ کے( پھر باقاعدہ سینے پر بیٹھنے کی پوزیشن بناتا)جیسے کوئی بندے کو گراکے اس کے سینے پر بیٹھ جاتا ہے۔ پھر زور زور سے زمین پر مکے مارتا ۔ کہتا: یہ اس کے سینے پر میں نے زور زور سے مکے مارے ہیںاور اس کی ہڈیاں توڑ دی ہیں اور میں نے وہ گناہ نہیں کیا۔ وہ بابا جی اس کو شاباش دیتے… شاباش تو آج جیت گیااور شیطان ہار گیا… ایمان، کلمہ،اسلام، یہ تین وکٹیں ہیں اور شیطان باؤلنگ کرارہا ہے۔ اب دیکھنا کوئی وکٹ اڑتی ہے یا نہیں اب وکٹ کو بچانا ہے اور فاسٹ بائولر کے بارے میں کہتے ہیں کہ اتنے کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کراتاہے ، پھر کہتا ۔ وہ بڑا پرانا ہے، بڑا تجربہ کار ہے وہ ان وکٹوں کو اڑانے کے چکر میں ہے۔ وہ کہتا ہے ان کو میں اڑادوں اور اگر یہ اڑ گئیں تو ،تو فیل ہوگیا۔ اور شیطان پاس ہوگیا وہ جیت گیا اورتوہار گیا۔ہر شخص کے ساتھ یہ معاملہ ہے اور شیطان کے ساتھ میچ ہے۔
میچ، شیطان کے ساتھ:کچھ جوان میچ کھیل رہے تھے ۔ ہمارے ایک بزرگ کہنے لگے: بھئی شیطان کے ساتھ میچ کون کھیلے گا؟ جوانوں نے کہا: جی وہ کیاہوتا ہے؟ شیطان سے بھی میچ کھیلتے ہیں…؟؟؟ کہا:ہاں…! شیطان نے آپ کی وکٹیں اڑانی ہیں اور اس کے ہاتھ میں گیند ہے اور وہ بڑی تیزی سے دوڑتا ہوا آرہا ہے اور آپ کے پاس ایک بلّا ہے۔ جوانوں نےپوچھا: وہ بلّا کیا ہوتا ہے…؟؟؟ بزرگ نے کہا وہ بلّا اﷲ کا حکم ہےاور حضور اکرم ﷺ کی مبارک سنتیں ہیں۔ اس کو سامنے رکھنا ہے کہ اب اس کی گیند کو دیکھیں کہ یہ کہاںآ رہی ہے؟ اب یہاں میرے اﷲ کا کونسا حکم متوجہ ہے میں وہ حکم اختیار کروں اور اس کی گیند کوزور دار شاٹ لگاکر فنا کردوں۔ اس بلّے سے اتنی زور سے گیند مارنی ہے کہ گیند پھر واپس بھی نہ آئے۔جیسے وہ کہتے ہیں جی! گیند ملی ہی نہیں نجانے کہاں گئی؟ اتنا تیز اس نے شاٹ مارا۔
یہ مثالیں اس لئے عرض کررہا ہوںکہ ہمارے معاشرے کی زندگی میں اس وقت کشمکش ہے۔ ارے جیتا ہوا پہلوان بوڑھا ہو کے بھی فاتح ہوتا ہے اور ہارا ہوا تندرست، طاقتور ہو نے کے باوجود اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ جو درویش ہیں ناں،درویش یعنی اﷲ والے۔ ان کی مثال جیتے ہوئے پہلوانوں کی ہوتی ہے۔
اونچی نسبت کاکمال:اگر اﷲاور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ لگ گئے انشاء اﷲپسنے سے بچ جائیں گے۔ اچھا مجھے ایک چیز بتائیں؟ ۔ گندم چھ سو روپے من، آٹھ سو روپے من، ہزار روپے من اگر بکتی ہےتو کوئی گندم ایسی دیکھی ہے جس میں کنکر نہ ہو؟؟؟ نہیں! گندم میں کنکرہوتا ہے ۔ کیا وہ کنکر گندم کے بھائو نہیں بکتا؟ وہ بھی ہزار روپے من کے حساب سے تلتا ہے اور اگر گندم اور کنکر کی بات آگئی تو ایک بات اور بھی سنتے جائیں جو اﷲ والوں کی مجالس میں بیٹھتا ہے جو فقیروں کے ساتھ رہتا ہے وہ فقیر جو اﷲ والے ہیں۔ حبیب خدا دے فقیراں تو صدقے
فقیراں دے روشن ضمیراں تو صدقے
نہ دولت تو صدقے نہ جنت تو صدقے
تری زلف دے جاں اسیراں تو صدقے
جنہاں رومی، جامی، تے سعدی نوں ڈنگیا
میں انا ںپیاری اکھیاں دے تیراںتو صدقے
جو اﷲ والوں کے ساتھ بیٹھے اٹھے وہ گندم نہ ہو‘ وہ کنکر ہو… لیکن یاد رکھیے! یہ اٹھنا بیٹھنا نہ چھوڑیئے گا۔ جب بولی لگے انشاء اﷲ میں دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہوں… تیرا حساب‘ کتاب اور تیرا بھائو اسی گندم کے بھائو لگ جائے گا اور انشاء اﷲ تیری حیثیت بھی گندم کی حیثیت کی طرح بن جائے گی اور تو بھی اسی طرح بوریوں میں پیک ہو کے تُلے گا اور کندھوں پہ اٹھایا جائے گا اور اگر تو کنکررہا اورگندم سے جدا رہا اور گندم کے ساتھ تیری نسبت نہ ہوئی۔ تو کندھوں پہ، سر پہ نہیں اٹھایا جائے گا بلکہ پائوں تلے روندا جائے گا۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں