شکر کی اصل.... محبت‘ ذلت اور سرنگوئی کے ساتھ صاحب نعمت کی نعمت کا اعتراف کرنا ہے.... جس کو نعمت کاشعور نہ ہو وہ شکر نہیں ادا کرسکتا اور جس کو شعور ہو اور اعتراف نہ ہو تو گویا اس نے شکر ادا نہ کیا اور جو نعمت اور صاحب نعمت کا شعور رکھتا ہو اور پھر بھی انکار کررہا ہو وہ کفر کے دائرہ میں داخل ہوگیا اور جسے نعمت اور منعم کا شعور بھی ہو اور اقرار و اعترف بھی‘ مگر خضوع‘ محبت اور رضا اس کی جانب سے نہ ہو اس نے بھی شکر ادا نہ کیا جس کے اندر نعمت اور منعم کے شعور کے ساتھ خضوع‘ محبت اور رضا تو ہو لیکن نعمت کو اللہ کی مرضیات اور اطاعت میں نہ لگایا ہو تو اس نے بھی شکر ادا نہیں کیا....غرض صحیح معنیٰ میں شکر کیلئے علم کے ساتھ منعم کی جانب میلان‘ محبت اور خضوع کا ہونا ضروری ہے۔ (علامہ ابن قیم جوزی از راہ سعادت)
اللہ کی کسی نعمت کا شکر یہ ہے کہ اس نعمت کو پھر معصیت کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے۔ (حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ)
شکر کے تین جز ہیں.... پہلے یہ کہ دل میں اس نعمت کی قدر ہو‘ دوسرے یہ کہ زبان سے شکر کررہے ہوں اورتیسرے‘ بدن سے نثار اور قربان ہورہے ہوں.... جب نعمت کا پورا شکر ادا کیا جاتا ہے تو اس نعمت میں اللہ تعالیٰ زیادتی کرتے ہیں اور اگر اس کی ناقدری ہورہی ہو تو گرفت بھی فرماتے ہیں۔ فرمایا: ”ہم‘ اس نعمت پر جو اللہ کی طرف سے ہے تینوں اجزاءوالا شکر ادا کریں تب شکر ادا ہوگا۔ آج ہم شکر کے صرف ایک جُز‘ زبان والے پر‘ قناعت کرلیتے ہیں۔ ہمیں بقیہ دونوں اجزا کیلئے متفکر ہونا اور کوشش کرنا بھی ہے۔ جب تک پورا بدن قربانی میں آگے نہیں بڑھے گا دل میں عظمت نہیں آئے گی۔ لہٰذا دین کا کام کرنے والوں میں شکر کی کیفیت کا بڑھانا ہے‘ جو اس قربانی میں بڑھتا رہے گا اس کی یہ نعمت بھی بڑھتی رہے گی۔ (مولانا انعام الحسن صاحب از دعوت کا فہم اور اس کی بصیرت)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں