سوال یہ ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟ والدین اپنے بچوں کو ان دونوں غلط طریقوں سے یعنی انتہائی سختی اور انتہائی نرمی سے کیسے بچائیں؟ اس کوشش میں کون سا فلسفہ کارآمد رہے گا؟ ہمارا مقصد یہ ہے کہ بچے کا حوصلہ پست کیے بغیر اس کی مرضی کو صحیح سمت میں موڑا جائے
والدین اور بچوں کے تعلقات آج کل جس طرح سے الجھے ہوئے ہیں اتنے شاید پہلے کبھی نہ رہے ہوں گے بعض والدین نے تو بچوں کو بالکل بے لگام چھوڑ دیا ہے اور بعض ان پر غلاموں اور قیدیوں کی طرح سے ظلم و ستم کررہے ہیں۔ امریکہ جو آج انتہائی ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے وہاں یہ حال ہے کہ خود امریکہ کے دانش ور ان مظالم سے نالاں ہورہے ہیں جو والدین اپنے بچوں پر کرتے ہیں اکثر اوقات انتہائی احتیاط کے باوجود بچوں پر سختی ہوجاتی ہے صبروتحمل کی تلقین کرنا بڑا آسان ہے لیکن خود اس پر عمل کرنا بڑا دشوار ہوتا ہے اور یہاں پر اسی چیز کی شدید ضرورت ہے بچوں کو مہلت اور موقع دینا چاہیے تاکہ ان کی نشوونما ہوسکے اور وہ محبت کرنا سیکھ سکیں۔ اس میں شک نہیں کہ بعض مواقع ایسے بھی آجاتے ہیں جب والدین کیلئے سختی کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
ان خطرات کو مارگریٹ اور ویلارڈبیچر نے اپنی کتاب میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پرانے زمانے میں والدین کی حیثیت آقا کی ہوتی تھی اور بچے ان کے غلام ہوتے تھے۔ آج والدین غلام بن گئے ہیں اور بچے آقا بن گئے ہیں۔ آقا اور غلام کے درمیان کسی قسم کا تعاون نہیں ہے لہٰذا اعتدال پسندی کا فقدان ہے بچوں پر انتہائی سختی سے پابندیاں عائد کرنا بھی درست نہیں اور ان کو ہر بات کیلئے بالکل آزاد چھوڑ دینا بھی غلط ہے کیونکہ ان دونوں طریقوں سے بچوں میں خود اعتمادی نہیں پیدا ہوتی جن بچوں کو نہایت سختی سے پالا جاتا ہے وہ یا تو بالکل نکمے ہوجاتے ہیں یا پھر خود سر ہوکر اپنے اردگرد کے لوگوں سے لڑتے رہتے ہیں اور آخر کار اپنی زندگی کو برباد کر ڈالتے ہیں لیکن جو بچے صرف اپنی مرضی کے علاوہ اور کسی کی بات نہیں مانتے وہ خود اپنی خواہشات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہرصورت وہ غلام ہی ہوتے ہیں اول الذکر ان لوگوں کے غلام ہوتے ہیں جو ان پر حکم چلاتے ہیں اور مئوخرالذکر اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں۔ ان دونوں اقسام کے بچوں میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ معاشرے کو کسی اچھی بنیاد پر قائم کرسکیں۔ اگر کچی شاخ کو اس طرح سے موڑ دیا جائے کہ درخت دونوں غلط سمتوں میں ٹیڑھا نہ ہو تو زندگی بھر کی پریشانی سے بچا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟ والدین اپنے بچوں کو ان دونوں غلط طریقوں سے یعنی انتہائی سختی اور انتہائی نرمی سے کیسے بچائیں؟ اس کوشش میں کون سا فلسفہ کارآمد رہے گا؟ ہمارا مقصد یہ ہے کہ بچے کا حوصلہ پست کیے بغیر اس کی مرضی کو صحیح سمت میں موڑا جائے۔ اس کیلئے ہم کو مرضی ”اور حوصلہ“ کا فرق سمجھنا چاہیے۔ انسانی شخصیت میں بچے کی مرضی ایک بڑی موثر قوت ہے۔ یہ عقل کی ان چند چیزوں میں سے ہے جو پیدائش ہی کے وقت پوری قوت کے ساتھ آجاتی ہے بچپن کے بارے میں جو تحقیقات کی گئی ہیں انہیں نفسیات کے ایک مشہور رسالے ”سائیکلوجی ٹوڈے“ میں اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ بچہ اپنے آپ کو اس وقت پہچاننے لگتا ہے جب اسے اس حقیقت کو بیان کرنے کیلئے بولنا بھی نہیں آتا۔ وہ عملاً اپنے ماحول پر خاص کر اپنے والدین پر قابو حاصل کرنے کی کوشش لگتا ہے۔
جو بچہ اپنی مرضی کا مالک ہے اس کے والدین کیلئے یہ سائنٹیفک انکشاف کوئی نئی بات نہیں‘ کیونکہ وہ رات رات بھر اسے گلے سے لگائے ٹہلتے رہتے ہیں اور ننھے سے ڈکٹیٹر کا ہر حکم بجالاتے ہیں۔ بعد میں ایک سرکش بچہ خفاہوکر ایک طرح سے اپنی سانس بھی روک سکتا ہے کہ بیہوش ہوجائے جن لوگوں نے اس قسم کی سرکشی دیکھی ہے وہ سکتے کے عالم میں رہ گئے ہیں۔ حال ہی میں ایک تین سالہ بچے نے یہ کہہ کر اپنی ماں کی بات ماننے سے انکار کردیا کہ نہیںجانتی تم صرف میری ماں ہو؟ ایک دوسری ماں نے اپنے تین سالہ بچے کے بارے میں بتایا کہ جب وہ اسے کچھ کھلانے چلی تو بچے نے انکار کردیا اور مقابلے پر آمادہ ہوگیا۔ ماں نے جب اصرار کیا تو وہ اتنا خفا ہوگیا کہ اس نے دو روز تک کچھ بھی نہ کھایا چنانچہ کمزور ہوگیا لیکن اس کے باوجود اپنی بات پر اڑا رہا۔ ماں بے چاری پریشان ہوگئی اور اسے خجالت بھی محسوس ہوئی آخر کار مجبور ہوکر باپ نے بچے کو گھور کر دیکھا اور کہا کہ اگر اب کھانے سے انکار کروگے تو اب تمہاری پٹائی ہوگی یہ ترکیب کارگر ثابت ہوئی اور مقابلہ ختم ہوا۔ بچے نے ہتھیار ڈال دئیے اور جس چیز پر بھی ہاتھ پڑا اسے کھانے لگا۔
یہاں پر ایک اور سوال یہ درپیش ہوتا ہے کہ بچوں کی اس طرح کی سرکشی کا تذکرہ اتنا کم کیوں کیا گیا ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بچوں کو عام طور پر فرشتہ صفات تصور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس قسم کی خامیوں کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھاگیا۔
مرضی نازک اور کمزور نہیں ہوتی جس بچے کے حوصلے پر مخمل کا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے وہ بھی اکثر اپنی مرضی کے سامنے فولاد ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ خود اپنے لیے اور دوسروں کیلئے ایک خطرہ بنارہتا ہے۔ اسی قسم کا آدمی پل پر سے چھلانگ مارنے کی دھمکی دیتا ہے اور پورا شہر اس کی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں مرضی ایک لچکدار چیز ہے۔ اسے ڈھالا جاسکتا ہے اور ڈھالا جانا بھی چاہیے۔ اس کے ساتھ اسے صیقل بھی کرنا چاہیے تاکہ بچہ ہمارے خود غرضانہ مقاصد کیلئے محض مشین بن کر نہ رہ جائے بلکہ اس میں یہ صلاحیت پیدا ہوکہ اپنے رجحانات کو قابو میں رکھ سکے اور اپنی آئندہ زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرسکے۔ والدین کی حیثیت سے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ بچے کی مرضی کو صحیح طور پر ڈھالیں۔
مرضی کے مقابلے میں حوصلہ کمزور ہوتا ہے
بچے کا حوصلہ اس کی مرضی کے مقابلے میں بے حد کمزور ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسے نازک پھول کی طرح ہوتا ہے جس کو بڑی آسانی سے توڑ کرپامال کیا جاسکتا ہے حوصلے کا تعلق ہوتا ہے ذاتی قدروقیمت سے۔
انسانی فطرت میں یہ خصوصیت بڑی نازک ہوتی ہے اگر آدمی کا مذاق اڑایا جائے ‘ اسے مسترد کیا جائے تو حوصلہ مجروح ہوجاتا ہے۔ اب یہاں پر پھر ایک سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ آخر کون سی ترکیب اختیار کی جائے کہ حوصلہ بھی برقرار رہے اور مرضی کو بھی ڈھال لیا جائے؟ یہ کام معقول حدبندی کے ذریعہ سے پائے تکمیل کو پہنچ سکتا ہے اور یہ حد بندی محبت کے ذریعہ سے کی جانی چاہیے بچے کو یہ احساس کبھی نہ دلایا جائے کہ وہ بے کار یا فضول ہے یا بے وقوف اور بدصورت ہے یا وہ گھر والوں کیلئے ایک بوجھ ہے۔ بچے کی قدروقیمت پر اگر اس طرح کا کوئی حملہ کیا جاتا ہے تو وہ بڑا تباہ کن ہوتا ہے۔ بچے کو کبھی یہ نہ کہنا چاہیے کہ تم کتنے گدھے ہو‘ یا یہ کہ تم اپنی بہن کی طرح اول کیوں نہیں آتے؟‘ یا یہ کہ جس دن سے تم پیدا ہوئے ہو ہم سب کیلئے ایک مصیبت بنے ہوئے ہو۔
اس بات کو ایک بار پھر نوٹ کرلیجئے۔ بچے کے حوصلے کو پست کیے بغیر اس کی مرضی کی تشکیل کرنا ہمارا مقصد ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 111
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں