تعلیم صرف روزگارکا سرٹیفکیٹ نہیں۔ اس کا اصل مقصد قوم کے افرادکو باشعوربنانا ہے۔افراد کو باشعور بنانا ملت کی تعمیر کی راہ کا پہلا قدم ہے۔ملت کا سفر جب بھی شروع ہوگا یہیں سے شروع ہوگا۔ اس کے سواکسی اور مقام سے ملت کا سفر شروع نہیں ہو سکتا۔باشعور بنانا کیا ہے؟ با شعور بنانا یہ ہے کہ ملت کے افراد ماضی اور حال کو ایک دوسرے سےجوڑ سکیں۔ وہ زندگی کے مسائل کو کائنات کے ابدی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکیں ۔وہ جانیں کہ وہ کیا ہیں ، اور کیا نہیں ہیں ۔ وہ اس راز سے واقف ہوں کہ وہ اپنےارادہ کو خدا کے ارادہ سے ہم آہنگ کر کےہی خدا کی اس دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ باشعور انسان ہی حقیقی معنوں میں انسان ہے۔جو باشعور نہیں وہ انسان بھی نہیں ۔باشعور آدمی اپنے اور دوسرے کے بارے میںصحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس کی کون سی رائےجانبدارانہ رائے ہےاور کون سی غیر رائے جانب دارانہ ، جب بھی کوئی موقع آتا ہے وہ یہ پہچان لیتا ہے کہ یہاں کون سی کارروائی رّدعمل کی کارروائی ہےاور کون سی مثبت کارروائی ہے۔وہ شر کو خیر سے جدا کرتا ہےاور باطل کو الگ کر کے حق کو پہچانتا ہے۔ایک آنکھ وہ ہے جو ہر آدمی کی پیشانی پر ہوتی ہے،تعلیم آدمی کوذہنی آنکھ عطا کرتی ہے۔عام آنکھ آدمی کو ظاہری چیزیں دکھاتی ہے، تعلیم آدمی کو اس قابل بناتی ہےکہ وہ معنوی چیزوں کو دیکھ سکے۔جس طرح ایک کسان بیج کو درخت بناتا ہے، اسی طرح تعلیم گاہ کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کوفکری حیثیت سے اس قابل بنائے کہ وہ ارتقائےحیات کے سفر کو مکمل کر سکے۔ تعلیم آدمی کو ملازمت دیتی ہے مگر یہ تعلیم کا ثانوی فائدہ ہے۔تعلیم کا اصل پہلویہ ہے کہ وہ آدمی کو زندگی کی سائنس بتائے۔ وہ آدمی کو حقیقی معنوں میں آدمی بنا دے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں