گلی کے ایک گھر میں شادی جیسی گہما گہمی تھی بچے بچیاں اچھے اچھے کپڑے پہنے گھوم رہے تھے خواتین کی بھی آمدورفت تھی جیسے کوئی تقریب ہو لیکن ہمارے آج کل کے دور کے مطابق نہ کوئی ہلہ گلہ نہ ہی ڈیک اور ریکارڈ کی آواز نہ لڑکیوں بچیوں کے گانے بجانے نہ ہی ڈانس اور تالیوں کی آوازیں یہ کیسی مہندی ہورہی ہے میں نے حیران اور خوش ہوکر اپنی خالہ جان سے پوچھا وہ بولیں بیٹا اس گلی میں کریم بخش صاحب کی بیٹی فوزیہ کی رسم مہندی ہے تم حیران ہورہے کہ اتنی خاموشی سے کیوں ہورہی ہے؟ بات یہ ہے کہ کریم بخش کے بڑے بھائی نادر خان انتہائی علیل ہیں بلکہ یوں ہے بستر مرگ پر پڑے سب کہہ رہے ہیں ٹانگوں سے جان نکل چکی ہے۔ فوزیہ کی شادی کی ڈیٹ مقرر ہوچکی تھی سوچا ہے کہ تایا کے مرنے کے بعد تو ان کی رسم چہلم تک شادی ٹل جائے گی سب کی رائے ہے کہ مقررہ تاریخ کو سادگی سے شادی کردی جائے۔ اچھا یہ بات ہے کیا نادر صاحب کے گھر والے آئے ہیں۔ نہیں انہوں نے کیسے آنا ہے میں دیکھنے گئی تھی بچیاں باپ کے سرہانے بیٹھی سورئہ یٰسین پڑھ رہی تھی، بیوی رو رہی ، بچے پریشان تھے تین دن ہوگئے ہیں اسی حالت میں ہیں، ایسے لگتا ہے آدھی جان نکل چکی ہے دیکھو کب اللہ تعالیٰ اس کی مشکل آسان کرتا ہے ہفتہ پہلے ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے اسی لیے خاموشی اور سادگی سے بھتیجی کی شادی ہورہی ہے دوسری صبح خاموشی سے برأت آئی اور دلہن کو رخصت کردیا گیا۔
عزیز رشتہ دار نادر خان کی عیادت کو آتے رہے۔ نادر خان مسلسل حالت بے ہوشی میں تھے۔ کافی دن گزر گئے میں نے نادر خان کے کسی رشتہ دار سے پوچھا نادر خان کی طبیعت اب کیسی ہے؟ توقع یہی تھی کہ جواب آئے گا وہ تو رحلت کرگئے لیکن جواب ملا وہ روبہ صحت ہورہے ہیں میں حیران کہ جن کے متعلق یہ کہا جارہا تھا کہ ٹانگوں سے جان نکلی چکی ہے کوئی دم کے مہمان ہیں اب یہ کیا سن رہے ہیں وہ بتدریج ٹھیک ہورہے ہیں تھوڑی بہت خوراک بھی لے رہے ہیں پھر سنا خود اپنے پائوں پر چل کر باتھ روم تک چلے جاتے ہیں آہستہ آہستہ مکمل صحت یاب ہوگئے لوگوں نے دیکھا کہ صبح صبح تھوڑی سی چہل قدمی کے لیے گھر سے نکلنے لگے ہیں پھر واقعی ہشاش بشاش ہوگئے جونہی ان کی صحت بحال ہوئی انہوں نے حج کا ارادہ کرلیا ان ہی دنوں میں حج کی درخواستیں جمع کروائی جارہی تھیں پاسپورٹ ویزے کے لیے دفتروں کے چکر لگائے کہتے کہ اللہ نے مجھے نئی زندگی دی ہے میں حج بیت اللہ کرنا چاہتا ہوں شاید اللہ نے مجھے اسی نیک کام کے لیے مہلت دی ہے اپنے بیٹے کے ساتھ مبارک سفر پر روانہ ہوگئے لوگ متعجب تھے دیکھو سب ان کی موت کے منتظر تھے اب چھ ماہ بعد وہ خیر خیریت سے فریضہ حج ادا کرنے جارہے ہیں۔ وہاں انہوں نے تمام فرائض حج خوش اسلوبی سے ادا کیے مدینہ منورہ کا مبارک سفر کیا۔ روضہ رسولﷺ کی زیارت کی درود سلام ذوق شوق سے پڑھے واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔ جدہ سے کراچی تک بخیر و عافیت آئے پھر کراچی سے ملتان کی فلائٹ لی جہاز میں طبیعت خراب ہوگئی ائیرپورٹ پر سٹریچر کے ذریعے اتارا گیا۔ عزیز رشتہ دار استقبال کے لیے گئے ہوئے تھے ان کو سیدھا نشتر ہسپتال لے جایا گیا وہاں انہوں نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ (محمد فاران ارشد بھٹی، خان گڑھ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں