ایک روز رسول اللہﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں اصحاب کہف سے ملاقات کی آرزو کی تو اسی وقت حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور بارگاہِ رسالت میں عرض کی کہ یارسول اللہﷺ! آپ انہیں دنیا میں ظاہراً نہیں دیکھ پائیں گے، البتہ اپنے اکابر صحابہ میں چار صحابیوں کو ان کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ آپ کا پیغام اُن تک پہنچائیں اور انہیں آپﷺ پر ایمان لانے کی دعوت دیں۔‘‘ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’اے جبریل! اس کی کیا صورت ہوگی، میں اپنے صحابہ کو ان کے پاس کیسے بھیجوں اور ان کے پاس جانے کا حکم کس کو دوں؟‘‘ حضرت جبریلؑ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہﷺ! ایسا کریں آپ اپنی چادر مبارک کو بچھائیں اور ایک طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، دوسری طرف حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، تیسری طرف حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چوتھی طرف حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بٹھا دیجئے۔ پھر اس ہوا کو بلائیں جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر فرمایا تھا، کیونکہ اللہ نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ آپﷺ کی اطاعت کرے آپ ﷺ اس ہوا سے ارشاد فرمائیے کہ ان چاروں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اٹھائے اور اس غار تک لے جائے جہاں اصحاب کہف آرام فرما ہیں۔‘‘ چنانچہ نبی کریمﷺ نے ایسا ہی فرمایا۔ تو ہوا نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کو اٹھایا، چاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان اس پر آرام و سکون سے بیٹھے رہے دیکھتے ہی دیکھتے وہ چادر آنکھوں سے اُوجھل ہوگئی یہاں تک کہ اصحاب کہف کے غار کے پاس ہوا نے چادر کو زمین پر رکھ دیا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے غار کے قریب پہنچ کر منہ سے پتھر ہٹایا جیسے ہی روشنی اندر پہنچی تو اصحاب کہف کے اس عاشق کتے نے جو اُن کے ساتھ ہی آرام کررہا تھا ہلکی سی آواز نکالی، گویا اس نے غار میں داخل ہونے والے کو بغیر اجازت داخلے سے خبردار کیا۔ خطرے کی بُو سونگ کر فوراً حملہ کرنے کے لیے باہر آیا لیکن جب اولیاء اللہ کے اس عاشق نے رسول اللہﷺ کے ان پیارے عُشّاق کو دیکھا تو اِن کے قدموں کے بوسے لینے لگا اور بڑے پیار سے اپنی دُم ہلانے لگا اور پھر سر کے اشارے سے اندر آنے کو کہا۔ چاروں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم غار کے اندر گئے اور سوئے ہوئے اصحاب کہف کو یوں سلام کیا
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے اصحاب کہف کو بیدار فرمایا اور انہوں نے بھی جواباً سلام کیا۔ چاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اپنا تعارف کروایا اور فرمایا: ’’بے شک اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد بن عبداللہﷺ نے آپ لوگوں کو سلام ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ہماری طرف سے بھی اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ پر جب تک زمین و آسمان ہیں سلامتی نازل ہو اور آپ سب پر بھی۔‘‘ پھر سب لوگ بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔ اصحاب کہف سرکارﷺ پر ایمان لے آئے اور دین اسلام کو قبول کیا اور عرض کیا کہ ’’ہماری طرف سے پیارے آقاﷺ کی بارگاہ میں سلام پیش کیجئے گا۔‘‘ پھر وہ اپنی اپنی جگہوں پر دوبارہ لیٹ گئے اور اللہ نے ان پر حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ظاہر ہونے تک نیند طاری فرمادی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ظہور فرمائیں گے تو انہیں سلام کریں گے اور ایک بار پھر اللہ ان کو بیدار فرمائے گا اور اس کے بعد قیامت تک کے لیے سو جائیں گے۔ بہرحال چاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان چادر پر اپنی اپنی جگہ دوبارہ بیٹھ گئے اور ہوا انہیں بارگاہِ رسالت ﷺ میں پہنچانے کے لیے چادر کو لے کر چل پڑی۔
صحابہ ؓو اہل بیتؓ سے محبت کرنے والے کی مغفرت پکی
اُدھر حضرت جبریل علیہ السلام سرکارﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور ان چاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ جو ہوا سب کچھ بیان کردیا اور جب چاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضر ہوئے تو سرکارﷺ نے ان سے استفسار کیا کہ ’’اصحاب کہف سے ملاقات کیسی رہی اور انہوں نے کہا؟‘‘ عرض کیا:’’یارسول اللہﷺ! ہم نے انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا، پھر ہم نے انہیں دین اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کیا اور دین اسلام بھی عرض کیا ہے۔‘‘ یہ سن کر نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرورﷺ بہت خوش ہوئے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیئے اوربارگاہِ الٰہی میں یوں دعا فرمائی: ’’یَا الٰہَ الْعَالَمِیْن! میرے، میرے رشتہ داروں، میرے دوستوں، میرے بھائیوں، میرے محبین کے مابین کبھی جدائی نہ ڈالنا اور جو مجھ سے محبت کرتا ہے، میرے اہل بیت سے محبت کرتا ہے، ان کا حامی ہے، اور جو میرے اصحاب سے محبت کرتا ہے ان سب کی مغفرت فرما‘‘ (روح البیان، پ ۱۵، الکہف، تحت الآیۃ: ۲۱، ج ۵، ص ۲۳۱، انوارِ آفتاب صداقت، ج ۲، ص ۱۹۸، فیضانِ صدیق اکبرؓ، ص ۶۱۲)
اسلام کی مالی خدمت:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ ایک کاروباری آدمی تھے اور کپڑے کا وسیع کاروبار کرتے تھے لہٰذا جس دن اسلام لائے آپ کے پاس چالیس ہزار درہم یا دینار تھے، سارے کے سارے راہ خدا میں خرچ کردیئے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، عبداللہ بن ابی قحافۃ، الرقم: ۱۶۵۱، ج ۳، ص ۹۴، تاریخ مدینۃ دمشق، ج ۳۰، ص ۶۶)۔عاقبت اللہ کے ذمہ کرم پر:ایک بار حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکارﷺ کی بارگاہ میں صدقہ لے کر حاضر ہوئے اور چھپا کر اسے پیش کیا اور عرض کیا یارسول اللہﷺ! اللہ کے ذمہ کرم پر ہی میری عاقبت موقوف ہے‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء)رسول اللہ کی مالی خدمت: اسلام قبول کرنے کے بعد سے ہجرت مدینہ تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کی مالی خدمت کرتے رہے لہٰذا ہجرت کے وقت آپ کے پاس کل مال پانچ یا چھ ہزار درہم تھا جو آپ نے اپنے ساتھ لے لیے۔ (اور رسول اللہﷺ پر صرف کردیئے)۔ (السیرۃ النبویۃ لا بن ہشام، ہجرۃ الرسول) رسول خداﷺ کی گواہی: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺ کی اتنی مالی خدمت کی کہ آپﷺ نے خود ارشاد فرمایا: ’’مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہ دیا جتنا ابوبکر صدیق کے مال نے دیا۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ، کتاب السنۃ، باب فی فضائل اصحاب رسول اللہ، الحدیث: ۹۴، ج ۱، ص ۷۲)
اپنے ہی مال جیسا تصرف:
آپﷺ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مال میں اپنے مال جیسا ہی تصرف فرماتے تھے۔ (المصنف لعبدالرزاق، کتاب الجامع، باب اصحاب النبی، الحدیث: ۴۸۴۸، ج ۱۰، ص ۲۲۲)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں