کرامت یار غار! تمام جوہرشناس حیران رہ گئے
حضور پاکﷺ کی وفات طیبہ کے بعد جو قبائلِ عرب مرتد ہوکر اسلام سے پھر گئے تھے ان میں سے ایک قبیلہ کندہ بھی تھا۔ چنانچہ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قبیلہ والوں سے بھی جہاد فرمایا اور مجاہدین اسلام نے اس قبیلہ کے سردار اعظم اشعث بن قیس کو گرفتار کرلیا اور لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر اس کو دربارِ خلافت میں پیش کیا۔ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے آتے ہی اشعث بن قیس نے بآواز بلند اپنے جرم ارتداد کا اقرار کرلیا اور پھر فوراً ہی توبہ کرکے صدق دل سے اسلام قبول کرلیا۔ امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوش ہوکر اس کا قصور معاف کردیا اور اپنی بہن حضرت ’’اُمّ فروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘‘ سے اس کا نکاح کرکے اس کو اپنی قسم قسم کی عنایتوں اور نوازشوں سے سرفراز کردیا۔ تمام حاضرین دربار حیران رہ گئے کہ مرتدین کا سردار جس نے مرتد ہوکر امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغاوت اور جنگ کی اور بہت سے مجاہدین اسلام کا خون ناحق کیا۔ ایسے خونخوار باغی اور اتنے بڑے خطرناک مجرم کو امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قدر کیوں نوازا؟ لیکن جب حضرت سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صادق الاسلام ہوکر عراق کے جہادوں میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر ایسے ایسے مجاہدانہ کارنامے انجام دیئے کہ عراق کی فتح کا سہرا انہیں کے سر رہا اور پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں جنگ قادسیہ اور قلعہ مدائن و جلولاء و نہاوند کی لڑائیوں میں انہوں نے سرفروشی و جانبازی کے جو حیرت ناک مناظر پیش کئے انہیں دیکھ کر سب کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ واقعی امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگاہِ کرامت کی نوری فراست نے حضرت سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات میں چھپے ہوئے کمالات کے جن انمول جوہروں کو برسوں پہلے دیکھ لیا تھا وہ کسی اور کو نظر نہیں آئے تھے۔ یقیناً یہ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک بہت بڑی کرامت ہے۔ (ازالۃ الـخفاء، ج۳، ص ۱۴۵)
امیرالمؤمنین کے دو محافظ غیبی شیر! حسن سلوک کا انوکھا واقعہ
ایک مرتبہ بادشاہ روم کا عجمی قاصد مدینہ منورہ آیا اور لوگوں سے امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا پتا پوچھا۔ اس کا خیال تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی عالیشان محل میں رہائش پذیر ہوں گے لیکن اس کے استفسار پر لوگوں نے بتایا کہ اس وقت امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحراء میں بکری کا دودھ دوہ رہے ہوں گے۔ یہ قاصد ڈھونڈتے ڈھونڈتے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا توکیا دیکھتا ہے کہ آپ نے چمڑے کا درّہ اپنے سر کے نیچے رکھا ہوا ہے اور زمین پر آرام فرما رہے ہیں۔ قاصد کو آپ کے اس طرح زمین پر آرام فرما ہونے پر بڑی حیرت ہوئی، اس نے دل ہی دل میں کہا: ’’مشرق و مغرب کے سب لوگ اس سے خوف کھاتے ہیں اور اس شخص کی حالت یہ ہے کہ خالی زمین پر آرام کررہا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محافظ بھی نہیں، اسے قتل کرنا کتنا آسان ہے‘‘۔ پھر اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کے ارادے سے تلوار نکالی، جوں ہی تلوار نکالی یکا یک کہیں سے ’’دو غیبی شیر‘‘ ظاہر ہوکر اس کی طرف لپکے۔ شیروں کو دیکھ کر اس پر کپکپی طاری ہوگئی، خوف کے باعث اس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی۔ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیدار ہوگئے۔ پھر اس قاصد سے خوف و دہشت کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قاصد سے بہت ہی نرمی سے پیش آئے اور اسے معاف فرما دیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس محبت بھرے رویے سے وہ بہت متاثر ہوا، اسلام کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی اور کلمہ شہادت پڑھ کر فوراً مسلمان ہوگیا۔ (تفسیر کبیر ، پ ۱۵، الکہف، تحت الآیۃ ۹، ج ۷، ص ۴۳۳)
جن سے فرشتے بھی حیاء کریں!ان کی کرامات جان لیجئے!
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی شریف کے منبر اقدس پر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بالکل ہی اچانک ایک بدنصیب اور خبیث النفس انسان جس کا نام ’’جہجاہ غفاری‘‘ تھا کھڑا ہو گیا اور آپ کے دست مبارک سے عصا چھین کر اس کو توڑ ڈالا۔ آپ نے اپنے حلم و حیاء کی وجہ سے اس سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا لیکن خدا تعالیٰ کی قہاری و جباری نے اس بے ادبی اور گستاخی پر اس مردود کو یہ سزا دی کہ اس کے ہاتھ میں کینسر کا مرض ہوگیا اور اس کا ہاتھ گل سڑ کر گر پڑا اور وہ یہ سزا پا کر ایک سال کے اندر ہی مرگیا۔(حجۃ اللہ علی العالمین ج ۲ ص ۲۶۸ و تاریخ الخلفاء ص ۱۱۲)
اپنے مدفن کی خبر
حضرت امام مالک علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کے اس حصہ میں تشریف لے گئے جو ’’حش کوکب‘‘ کہلاتا ہے تو آپ نے وہاں کھڑے ہوکر ایک جگہ پر یہ فرمایا کہ عنقریب یہاں ایک مرد صالح دفن کیا جائے گا۔ چنانچہ اس کے بعد ہی آپ کی شہادت ہوگئی اور باغیوں نے آپ کے جنازہ مبارکہ کے ساتھ اس قدر ہلڑ بازی کی کہ آپ کو نہ روضہ منورہ کے قریب دفن کیا جاسکا نہ جنت البقیع کے اس حصہ میں مدفون کئے جاسکے جو کبار صحابہؓ کا قبرستان تھا بلکہ سب سے دور الگ تھلک ’’حش کوک‘‘ میں آپ سپرد خاک کئے گئے جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک بنے گی کیونکہ اس وقت تک وہاں کوئی قبر تھی ہی نہیں۔ (ازالتہ الخفاء مقصد ۲ ص ۲۲۷)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں