کہتے ہیں کہ بچے کے ابتدائی سال ہی اس کی شخصیت کی بنیاد قرار پاتے ہیں۔ بچے کو جس سانچے میں ڈھالا جائے وہ اس میں ڈھل جائے گا۔ بے شک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت میں نمایاں تبدیلی آتی چلی جاتی ہے کیونکہ بچہ جب گھر سے باہر کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تو ایک بالکل نئے ماحول میں اپنے آپ کو پاتا ہے لیکن یہ بات مصدقہ ہے کہ بچپن کی تربیت کے اثرات ساری عمر رہتے ہیں۔اکثر بڑی بوڑھیاں، مائیں یا رشتہ دار خواتین بڑے مزے سے ہر قسم کے موضوع پر گفتگو کررہی ہوتی ہے جبکہ پاس ہی کم عمر بچے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی سمجھدار خاتون دوسری خواتین کو ٹوک دے کہ ذرا احتیاط سے بات کی جائے آپ کے پاس بچے بیٹھے ہوئے ہیں تو فوری یہ یہی جواب ملے گا کوئی بات نہیں بچہ ہی تو ہے۔بعض خواتین پردہ کے معاملے میں بھی زیادہ خیال نہیں رکھتیں حسب معمول بچہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے ایک اور بڑی قباحت اس سلسلہ میں یہ ہے ننھے منے بچوں کو ٹی وی لگا کر خود مائیں کام کاج میں لگ جاتی ہیں۔ مائیں اپنی طرف سے کارٹون لگا کر خود بے فکر ہو جاتی ہیں لیکن اکثر ریموٹ بچوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے بہت چھوٹے بچے تو کارٹون دیکھتے رہیں مگر چار پانچ سال کابچہ اس طرح نہیں کرے گا وہ اپنی مرضی سے چینل بدل لے گا۔ آہستہ آہستہ بچہ والدین کی موجودگی میں تو کارٹون دیکھے گا لیکن جیسے ہی والدین نظروں سے اُوجھل ہوئے جھٹ گانے اور فلمیں دیکھنے لگے گا‘ مائیں اپنی نادانی میں یہی سمجھتی رہتی ہیں کہ بچوں کی محض تفریح ہورہی ہے لیکن کبھی ان چیزوں کے نقصانات کی گہرائی میں جانے کی کوشش کریں تو مستقبل کی ایک بھیانک تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔ مثلاً آپ جب چھوٹے بچوں کے سامنے ہر قسم کی باتیں کررہی ہوتی ہیں تو بظاہر توبچہ اپنے کام میں مگن ہے مگر اس کے کان باتوں کی طرف لگے ہوئے ہیں بلکہ اکثر بچوں کو دیکھا گیا ہے کہ بڑے مزے سے بازوںمیں چہرے ٹکائے بڑے انہام سے باتیں سن رہا ہوگا اس طرح ایک تو اسے بڑوں کی باتیں سننے کی عادت پڑجائے گی اور اکثر بچے جب باتیں سنتے ہیں تو گھر میں ہونے والی باتیں دوسروں کو بتا دیتے ہیں جس سے ایک تو اکثر گھروں میں لڑائیاں پڑجاتی ہیں اور بعض لوگ بچوں کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں‘ جائو سن آئو فلاں کیا بات کررہا ہے۔ عمر کےساتھ یہ عادت پختہ ہوجائے گی ۔ بچے میں چغل خوری کی عادت پڑجائے گی۔ بعض خواتین ’کھلے‘ موضوعات پر باتیں کررہی ہوتی ہیں اور بچے انہماک سے پاس بیٹھے سن رہے ہوتے ہیں پھربچوں کو ان باتوں کو جاننے کا تجسس پیدا ہوگا۔اسی طرح اگر بچے بچپن ہی سے شرم و حیا اور پردےکے متعلق نہ بتایا جائے تو اس کے اثرات بھی آنے والے زندگی میں ضرور مرتب ہوں گے۔ میری گزارش ہے کہ گھروں میں بچپن ہی سےبچوں کو ایسی چیزیں سمجھا دی جائیں ان کے والدین کو بچوں کی تربیت میں خاص تردد نہیں کرنا پڑتا بچیاں بچے عمر کے ساتھ اوڑھنا پہننا سب کچھ خود ہی سیکھ لیتے ہیں اس سلسلہ میں بیٹا بیٹی کا کوئی امتیاز نہیں۔ ٹی وی کے سامنے بٹھا دینے سے بچوںمیں کم عمری میں بے راہ روی کا خدشہ ہوتا ہے جو ان کی صحت اور اخلاق دونوں کی تباہی کا سبب بنتا ہے اگر ان تمام باتوں پر غور کیا جائے تو یقیناً ہم تھوڑی سی محنت سے اپنے بچوں کو آئندہ آنے والی قباحتوں سے بچا سکتے ہیں اور ان باتوں پر عمل کرنا کوئی ایسا مشکل بھی نہیں ہے بس ذرا سی احتیاط کی ضرورت ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں