ایک آدمی بیان کرتا ہے کہ میری ماں کی ایک آنکھ تھی وہ لوگوں کے گھروں میں کھانا پکا کر اور سکولوں میں صفائی کرکے اپنا اور میرا پیٹ پالتی تھی۔ ایک دن میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا کہ میری ماں میرے لیے کھانا لیکر ادھر آگئی۔ میں نے جب اپنے دوستوں کے سامنے اپنی ایک آنکھ والی ماں کو دیکھا تو شرم کے مارے میرا بُرا حال ہوگیا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اس کی ماں کی ایک آنکھ ہے۔ میں اپنی ماں سے اس کی ایک آنکھ کی وجہ سے بہت نفرت کرتا تھا اور اسے دور بھگا دینا چاہتا تھا۔ میری ایک آنکھ والی ماں میرے لیے ایک ڈرائونا خواب بن گئی تھی جیسے میں جلد از جلد بھول جانا چاہتا تھا۔ میری ایک آنکھ والی ماں نے ہمیشہ مجھے اچھی تعلیم دلوائی میں جوان ہوکر سنگاپور چلا گیا وہاں میں نے بہت دولت کماکر ایک نہایت عالی شان گھر تعمیر کرلیا پھر میری شادی ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد سے بھی نوازا۔ ان خوشبوں میں اور عیاشیوں میں گم ہوکر میں اپنی ایک آنکھ والی ماں کو بھول چکا تھا۔ ایک دن گھر کے دروازے پر دستک ہوئی اس وقت کون ہوسکتا تھا یہ سوچتے ہوئے میں نے دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میرا سرچکرا گیا اپنی ماں کو دیکھ کر میں غصے کے عالم میں چیخا تم یہاں کیا کرنے آئی ہو؟ میری آواز سن کر میرے بچے بھی باہر آگئے اور اس عورت کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں نے بھی غصے کی حالت میں اپنی ماں کو برا بھلا کہا اور دور چلے جانے کو کہا لیکن اس عورت کے چہرے پر کرب کے تاثرات تک نہ تھے اور نہ ہی اس نے اپنے دفاع کے لیے ایک لفظ بھی کہا وہ کمال مہارت سے دکھوں کو اپنے سینے میں چھپانے کا ہنر جانتی تھی۔ اس لیے مسکراتی ہوئی چلی گئی میں اس واقعے کو بھی ماضی کا حصہ سمجھ کر بھول گیا۔کئی سال بعد مجھے ایک خط موصول ہوا جس میں سکول کے تمام پرانے طلباء کو مدعو کیا گیاتھا۔ میرے دل میں بھی سکول کی محبت جاگ اٹھی اور میں کاروباری دورے کے بہانے اسی جگہ چلا آیا جہاں میں پلابڑھا تھا۔ چلتے چلتے میں اس جھونپڑے کے پاس پہنچ گیا جہاں میں اپنی ایک آنکھ والی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ میں نے حوصلہ کرکے دروازہ بجانا شروع کردیا لیکن کوئی مانوس آواز میری سماعتوں سے نہ ٹکرائی۔ میں اس وقت صحرا میں تنہا مسافر کی طرح کھڑا تھا۔ میں نے ہمسایوں سے ماں کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بہت عرصہ پہلے وہ عورت فوت ہوچکی ہے اور تمہارے لیے ایک خط چھوڑا ہے میں نے جلدی سے وہ خط کھولا اور پڑھنے لگا میری ماں نے لکھا تھا۔
میرے پیارے بیٹے جب تم چھوٹے تھے ایک حادثے میں تمہاری ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ میرے لیے بطور ماں یہ ناقابل برداشت تھا کہ عمر کی منزلیں اسی طرح ایک آنکھ کے ساتھ طے کرو میں چاہتی تھی کہ تمہارے دوست تمہارا مذاق نہ اڑائیں۔ میرے پاس تمہیں ان تمام مشکلات سے بچانے کا ایک ہی حل تھا اس لیے میں نے تمہاری محبت میں اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی۔ تاکہ تم دنیا کو ایک آنکھ سے نہیں بلکہ میری آنکھوں سے دیکھ سکو میرے پاس یہی ایک طریقہ تھا کہ تم ہمیشہ مسکرا سکو اور ترقی کی منزلیں طے کرو۔ لیکن ایسی دولت کا کیا فائدہ جو انسان کو اپنے ماں باپ سے غافل کردے اور وہ اس بے فائدہ سی چیز کی وجہ سے وہ ایک نہایت عظیم نعمت سے محروم ہو جائے جو کہ صرف دنیا میں ایک بار ملتی ہے اور صرف قسمت والے ہی مستفید ہوسکتے ہیں۔ میرا سر شرم اور ندامت سے چکراگیا‘ مجھے خود سے نفرت محسوس ہورہی تھی‘ میں خود ہی کھڑا اپنا چہرہ اور بال نوچ رہاتھا‘ مگر اب کیا ہوسکتا ہے؟ سوائے ندامت اور شرمندگی کے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں