بچے آنگن کے پھول ہوتے ہیں جب تک یہ پھول آنگن میں نہیں کھلتے گھر بے رونق اورخوشیوں سے خالی ہوتا ہے۔ اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو بالکل کورا کاغذ ہوتا ہے۔ ہم جو چاہیں اس پر تحریر کردیں۔ بچہ ماں باپ سے ہی سیکھنا شروع کرتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر تحفہ اسکی تعلیم وتربیت ہے‘‘۔
اولاد کی صحیح تربیت والدین کا اولین فرض بھی ہے اور حق بھی ہے۔ تربیت یافتہ اولاد والدین کی نیک نامی کا سبب بنتی ہے۔ ان کے بڑھاپے کا سہارا اور مرنے کے بعد صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔ والدین کو سب سے زیادہ ان کو اخلاق حسنہ کی تربیت دینی چاہیے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی محبت اور شفقت بھرا رویہ پیش کریں۔ بچپن کے احساسات اور خیالات مستقبل کی خواہشات اور رحجانات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ والدین بچوں کے ساتھ انکے بچپن میں خود بھی بچے بن کر خوش رہتے ہیں اور بچے بھی ہنستے کھیلتے رہتے ہیں جوں ہی بچے بڑے ہو جاتے ہیں والدین کو اچانک ان کے اخلاقیات، نظم و ضبط، تعلیم اور مستقبل کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ حالانکہ عمارت کی بنیادی اینٹ کی طرح بچے کی تربیت تو پہلے دن سے ہی شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ مگر والدین اچانک ان کو نظم و ضبط اور اعلیٰ انسان بنانے کے لیے سختیاں شروع کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچے میں باغیانہ رویہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ اس طرح بچے بلوغت کے بعد غصیلے ‘چڑچڑے اور بے سکون اور بے اطمینان نظر آنے لگتے ہیں۔ اور کہیں اور اپنا سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین کو حکمرانی کی بجائے دوستانہ رویے کے ساتھ بچوں سے پیش آنا چاہیے۔ باہمی اعتماد اور عزت و احترام کی فضاء پیدا کرکے ہی بچوں سے توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ورنہ باہر کے ماحول سے بچہ خود کو سکون میں محسوس کرے گا۔ بچے کو دلائل سے اپنی بات سمجھائیں اور بحث سے گریز کریں۔ اس طرح بچوں اور آپ میں دوری نہیں ہوگی۔ اس کام کے لیے اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے خصوصی ٹائم نکالیں۔ ان کی سنیں اور خوب سنیئے۔ پھر جو بات رویہ یا ذہنی دبائو ہو آپکو اسے بہتر انداز میں حل کرنا چاہیے۔
بچوں کے ساتھ کھیلیں اور انہیں دوسروں کے ساتھ میل جول کے آداب، برداشت اور حسن سلوک، فرمانبرداری، بڑوں کا ادب اور دینی اصولوں سے آگاہی دیں۔ بچوں کی تربیت کو والدین ہرگز بوجھ نہ سمجھیں۔ یہ سوچیں کہ بچے آپ کے ہی ہیں۔ اور ذمہ داری بھی آپکی ہی ہے۔ والدین اپنے رویوں کابھی جائز لیتے رہیں۔ ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے کہ یتیم وہ بچہ نہیں جس کے والدین اسے دنیا میں تنہا چھوڑ گئے بلکہ اصل یتیم وہ ہے جن کی مائوں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں اور باپ کے پاس انہیں دینے کا وقت نہیں۔
بچہ ماحول‘ سرشت اور موروثی خصوصیات پر منحصر ہستی ہے جو درست تربیت پر قوم کا مصلح اور لیڈر بھی بن سکتا ہے۔ جسمانی سزا سے بچے ضدی غصیلے، باغی، برہمی بے باکی اور بغاوت کے جذبات والے بن جاتے ہیں۔ اور اندر سے خوف زدہ بھی رہتے ہیں۔ سکول میں اکثر بچے اپنا سابق اس لیے نہیں سنا سکتے کہ جس طرح والدین غلطیوں پر مارتے ہیںاستاد بھی ماریں گے اس طرح انہیں یاد کیا ہواسبق بھی بھول جاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں