(حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (پی ۔ ایچ ۔ ڈی : امریکہ) ایڈیٹر : عبقری )
گولڈن ہینڈ شیک‘ گریجویٹی اور ملازمت کے بعد ملنے والی رقم اکثر ضائع ہوجاتی ہے آخر کیوں؟ چونکہ سارا دن میرے پاس دکھی آتے ہیں‘ ویسے بھی سکھی وقت ضائع کرنے ہی آئیگا‘ اس کا کیا کام‘ جتنے بھی دکھی آتے ہیں ان میں ملازم پیشہ لوگ جوساری زندگی کی پونجی یا تو کسی کاروبار میں لگاتے ہیں یا پھر کسی کے ساتھ شراکت کرتے ہیں۔ مال ضائع اور لوٹ لیا جاتا ہے یا پھر دھوکہ ہوجاتا ہے بیٹے کو بیرون ملک بھیجنے کیلئے کسی کو رقم دی وہ مکر گیا یا لے کر بھاگ گیا۔(بہت کم کہ جو فائدہ لیتے ہیں۔)
مکان بنوانے کا ارادہ کیا‘ تعمیر بہت کم مکمل ہوتی ہے اور رقم ختم ہوجاتی ہے۔ بیٹی کی شادی کی اور ساری رقم ختم ہوگئی پھر مہینے کے بعد پنشن کا انتظار ہوتا ہے یوں بھی ہوتا ہے کہ رقم بینک میں رکھوا دی اور ماہانہ سود لے کر کھانا شروع کردیا۔ بہت کم لوگ ایسے ملے کہ جنہیں یہ رقم نفع دے گئی ہو۔سالہا سال سے یہ کیس آتے رہتے ہیں لوگوں کو بہت پریشان حال دیکھا۔ پچھلے دنوں ایک صاحب کہنے لگے جو کچھ ملا‘ ایک گاڑی خریدی سوچا تھاکرایہ پر چلتی رہے گی‘ گاڑی چوری ہوگئی‘ پھر اور رقم اکٹھی کی لیکن بیٹے پر قتل کا مقدمہ بن گیا اور ساری رقم لگ گئی حتیٰ کہ مزید رقم ادھار لی لیکن سب کچھ برباد ہوگیا۔ یہ ایک واقعہ نہیں ایسے بے شمار واقعات خود میرے مشاہدے‘ سننے اور دیکھنے میں آتے ہیں۔بار بار سوچتا رہا اوراسباب پر غور کیا جتنے واقعات آئے اتنے ہی اسباب مشاہدے میں ملے۔ کئی ارباب فکر و نظر اور اصحاب دانش کے بھی تجربات و مشاہدات کے بعد جن نتائج پر پہنچا ہوں وہ لکھ رہا ہوں اگر آپ کے مشاہدے تجربے میں کوئی اور چیز آئی ہو تو ضرور لکھیں جو اسباب نظر آتے ہیں وہ تحریر ہیں۔
رزق میں برکت کا عجیب فارمولہ:
ایک شخص نہایت غصہ میں جارہا تھا کسی درویش نے پوچھا خیریت ہے کہاں جارہے ہو؟ کہنے لگے اپنے مالک سے دوٹوک بات کروںگا یا ملازمت سے استعفیٰ یا پھر تنخواہ بڑھائیں کیونکہ میرا گزارہ نہیں ہوتا درویش نے فرمایا میرا مشورہ مانو تو چند ماہ کی تنخواہ نہ لو‘ وہ حیران ہوا‘ فرمایا دراصل جتنے کام اور ذمہ داریوں کی تنخواہ لیتے ہیں وہ پوری نہیں کرتے‘ خیانت کرتے ہیں برکت ہوتی نہیں‘ پھر شکوہ کرتے ہیں۔ ان کو بات سمجھ آگئی انہوں نے ایسا ہی کیا اور چند ماہ کی تنخواہ نہ لی اور قدرت نے برکتوں کے خزانے انہیں اور ان کی نسلوں کو عطا کردئیے۔ کچھ یہی حال ملازم پیشہ حضرات کا ہوتا ہے سب انگلیاں برابر نہیں لیکن اکثر ایسا کرتے ہیں اور پھر ساری زندگی کا وہ صلہ جو مال کے انداز میں ملتا ہے وہ لٹ جاتا ہے یہ مال سود در سود حکومت کے خزانے سے آتا ہے اور اس تنخواہ میں سے کٹتا جاتا ہے حتیٰ کہ بڑھتے بڑھتے وہی ملتا ہے پھر اس میں برکت کہاں سے تلاش کریں۔ یہ دو بڑے سبب ہیں جو مال کو ضائع کرنے اور مال کی برکت کو ختم کرنے میں بہت زیادہ پیش پیش ہیں۔ پھر مفلسی مقدر بن جاتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ ضرور لکھیں۔
(www.ubqari.org)
٭…٭…٭