Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

عظمت علم اور باادب لوگ (مولانا محمد حسان صاحب سکھروی، کراچی)

ماہنامہ عبقری - مارچ 2009ء

بلاشبہ وہ اہم ترین بات جس کی طرف ایک ذہین طالب علم کو اپنی چڑھتی جوانی میں سبقت کرنی چاہیے اور نفس کو اس کے حصول میں تھکا دینا چاہیے وہ حسن ادب ہے۔ چنانچہ فرمایا: ”حسن ادب ایک ہنر مند طالب علم کا زیور ہے جس کے ذریعے وہ پروان چڑھتا ہے اور بلندی کے مقامات طے کرتا ہے اور اسی حسن ادب کی بنا پر علم میں نور پیدا ہوتا ہے، پختگی اور وسعت پیدا ہوتی ہے۔“ جب حضرت امام قاضی ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ سے ان کے درجہ قضاءتک پہنچنے کی بابت سوال کیا گیا تو حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے جواب میں ارشاد فرمایا۔ مَا بَلَغَ مَن بَلَغَ اِلاَّ بِالحُرمَہِ وَمَا سَقَطَ مِن سَقَطَ اِلاَّ بِتَرکِ الحُرمَہِ فرمایا: ”کوئی بھی بلندیوں پر حسن ادب حاصل کیے بغیر نہیں پہنچا اور کوئی بھی بلندیوں سے نہیں گرا مگر حسن ادب کے ترک کرنے کی وجہ سے“۔ معلوم ہوا حسن ادب ہی اصل چیز ہے جس کی وجہ سے طالب علم کے علم میں نور پیدا ہوتا ہے۔ اسی بنا پر وہ بلندیوں کا سفر طے کرتا ہے جہاں ہر کس و ناکس کی رسائی ممکن نہیں اور فرمایا محض پڑھنے پڑھانے سے علم تو حاصل ہو جاتا ہے مگر علم کا نور حاصل نہیں ہوتا۔ علم کا نور تو اساتذہ اور کتابوں کے ادب سے حاصل ہوتا ہے۔ مشقت برداشت کرنا اسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا واقعہ جو قرآن مجید میں مذکور ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حصول علم کیلئے مثالی کردار ادا کیا۔ جب سفر کا آغاز فرمایا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ”اَو اَمضِیَ حُقُبًا“ یعنی یونہی سالہا سال تک چلتا رہوں گا باوجود یہ کہ یہ سفر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر لازم و واجب نہیں تھا مگر حصول فضائل کیلئے آپ نے اس پر مشقت سفر کو برداشت کیا۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا: لَقَد لَقِینَا مِن سَفَرِناَ ہَذَا نَصَبًا (سورئہ کھف: آیت نمبر 62)”ہمیں تو اس سفر میں بہت تکلیف پہنچی ہے۔“ فرمایا جب موسیٰ علیہ السلام کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو بات چیت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سفر کا قصدان الفاظ میں ظاہر فرمایا ہَل اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمتَ رُشدًا (سورئہ کھف: آیت نمبر 66)”کیا میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ جو مفید اور بھلی چیز آپ کو سکھائی گئی ہے اس میں سے تو کچھ مجھ کو بھی سکھا دیں۔“ یہ در حقیقت ایک درخواست تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے سامنے پیش فرمائی۔ حصول ادب کے طریقے اسی طرح حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ادب کیسے حاصل کیا؟ جواب میںارشاد فرمایا کہ جیسے ماں اپنے گم شدہ اکلوتے بیٹے کو بے صبری اور بے چینی کی حالت میں تلاش کرتی ہے، اسی طرح میں نے بھی ادب حاصل کیا اور جستجو میں لگا رہا۔ اسی طرح جب حضرت لقمان حکیم سے پوچھا گیا کہ آپ نے ادب کیسے حاصل کیا، فرمایا بے اَدبوں سے۔ اللہ اکبر! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنی جلالت شان کے باوجود حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی باگ تھام کر ان کے آگے آگے چلتے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور آپ ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کی باگ تھامے ہوئے ہیں؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب ارشاد فرمایا ”اِنَّہ یَنبَغِی لِلحِبرِ اَن یُّعَظَّمَ وَیُشَرَّفَ“ بڑے عالم کیلئے مناسب ہے کہ اس کی تعظیم و تکریم کی جائے“۔ مزید ارشاد فرمایا کہ میں نے طالب علم بن کر ذلت اختیار کی تو مجھے مطلوب بن کر عزت دی گئی۔ اب عزت چاہنے والے کیلئے یہی طریقہ ہے کہ عاجزی اور خدمت استاد اختیار کریں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن کریم سیکھنے کیلئے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ ان کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے مگر دستک نہ دیتے اس بات کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے برا جانا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد میرے دروازے پر اس طرح تکلیف اٹھائیں تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ نے دروازے پر دستک کیوں نہ دی، تو جواب میں فرمایا کہ عالم شخص ہماری قوم میں ایسے ہیں جیسے نبی اپنی اُمت میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے نبی کے بارے میں ”وَلَو اَنَّہُم صَبَرُوا حَتّٰی تَخرُجَ اِلَیہِم لَکَانَ خَیراً لَّہُم۔(سورہ الحجرات: آیت نمبر 5) اور یہ لوگ ذرا صبر سے کام لیتے یہاں تک کہ آپ خود ان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کیلئے بہتر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔“ حضرت علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ ، صاحب روح المعانی نے فرمایا: ”یہ واقعہ میں نے بچپن میں سنا تھا بڑے ہو کر اس پر عمل کیا اور اپنے اساتذہ کے ساتھ یہی معاملہ کیا۔“
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 741 reviews.