معصوم شرافت اور خصوصی رحمت (یوسف علی، آسٹریلیا)
آج اتو ا ر تھا ۔ شرا فت علی اتوار بازار سے سودا لینے گئے تو سلمان کو بھی لے گئے ۔ اب وہ آٹھویں جماعت میں تھا۔ اسے زندگی کے معاملات سے آگہی دینے کے لیے اس کے ابواسے اکثر ساتھ لے جا تے ۔ انہو ں نے اپنے مخصوص دکانداروں کو سلام کیا پھر ان سے مصافحہ کیا ۔ حال چال پوچھا۔ انہو ں نے سبزی ، پھل، گوشت، انڈے ، دالیں ، چاول ، گڑ ، چینی ، مصالحے ، وغیرہ خریدے ۔ سب سے آخر میں مرغ کے گوشت کی باری آئی۔
سلمان کی آنکھو ں میں آنسو آگئے ۔ یہ کیسی دنیا ہے ؟ ہر طر ف ہم بے زبانو ں پر ظلم کر تے ہیں ۔ وہ تو فریا د بھی نہیں کر سکتے ۔ اپنی تکلیف بتا بھی نہیں سکتے ۔
انسان کتنا ظالم ہے ....ابھی اس کی سو چ کی پر واز یہا ں تک پہنچی تھی کہ طو طے اور چڑیا ں بیچنے والا آگیا۔ وہ آوازیں لگا رہا تھا ۔ اس کے ابو نے دیکھا ۔ سلمان بڑی دلچسپی سے انہیں دیکھ رہا ہے ۔ انہو ں نے بھی وہ پنجرے خرید لئے، ایک میں طو طے تھے ، دوسرے میں رنگ برنگی چڑیاں تھیں۔
گھر واپس آئے تو سلمان اپنے کمرے میں جا کر نہا یا ۔ ٹھنڈا پانی پیا ۔ پنکھا چلایا تو کسی قدر گرمی کا احسا س کم ہو ا۔ اسے پنجروں کا خیال آیا ۔ وہ بھی گرمی سے آئے تھے ۔ اس نے ان کو دانہ ڈالا ۔ پانی پینے کے لیے رکھا اور دونو ں پنجرے اٹھا کر اے سی والے کمرے میں لے گیا۔ اس کی امی نے کہا سلما ن ان کی جگہ نہیں ہے ، ان کو کہا ں لے آئے ہو ، امی بس ذرا دیر .... پھر ان کو برآمدے میں چھوڑ آئوں گا ۔
جب اس کی امی نے کھا نا پکا کر میز پر لگا یا اور سارے گھر والے کھانے کے لیے بیٹھے تو سلمان نے اپنی پلیٹ میں صرف چنے کی دال کا سالن ڈالا اور کھا نا کھانے لگا ۔ اس کی دادی امی نے کہا بیٹا چکن کا سالن لے لو ۔ وہ چپ رہا ۔ پھر امی نے کہا کہ ایک بوٹی ہی لے لو ۔ جب سب نے اصرار کر کے پو چھا کہ آخر تم جو چکن پیس کے اتنے شو قین تھے ، آج بوٹی کیوں نہیں کھاتے .... تو وہ بولا ۔ ” اگر آج آپ مر غیو ں کو ذبح ہوتے دیکھ لیتے تو آپ بھی کبھی یہ گو شت نہ کھا تے۔“ لیکن بیٹا اللہ تعالیٰ نے انسانو ں کے کھا نے کے لیے انہیں پیدا کیا ہے ۔ یہ ظلم نہیں ہے ۔ اس کی دادی نے سمجھا تے ہوئے کہا ۔ لیکن دادی جان .... جو سلوک ہم انسان ان سے کر تے ہیں ۔ اگر انہیں کبھی زبان مل جائے تو وہ بتائیں۔ کیا ہم ان پر رحم نہیں کر سکتے ؟ہما رے ما سٹر صاحب بتا رہے تھے کہ حدیث نبوی اہے تم رحم کر و تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ اس کے ابو نہا یت غور سے اپنے بیٹے کی گفتگو سن رہے تھے ۔ .... اچھا سلمان تم یہ بتا ئو کہ اگر ان کی جگہ تم ہو تے تو کیا کر تے .... ؟میں کیا کر تا ....؟ اول تو میں یہ ظلم نہیں کر سکتاکہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ان کو ذبح کر تا ۔ لیکن فرض کر و کہ یہ فرض تمہیں سونپا جائے تو تم کیا کر و گے ؟میں سب سے پہلے منا سب کھلی جگہ میں ان کا پنجر ہ بناتا ۔ جس میں پنکھے چل رہے ہو تے ۔ اتنی جگہ کہ مرغیاں آسانی سے چل پھر سکتیں ۔ ان کے کھا نے کے لیے دانہ اورپینے کے لیے پانی مو جو د ہوتا۔
پھر اونچی آواز میں تکبیر پڑھ کر ذبح کر تا اور اس گندے ڈرم میں ہر گز نہ پھینکتا ۔ کیونکہ وہ بہت گندہ تھا۔ اس سے بیماریاں پھیلتی ہیں ۔ ہر جگہ بد بو آرہی تھی۔ پھر نرمی سے ان کے پر اتار تا اور صاف ستھرے ترا زو میں تول کر صاف ستھرے شاپنگ بیگ میں پیک کرکے دیتا ۔ ایک تو ظلم .... یعنی بے رحمی دوسرا حفظان صحت کے اصولو ں کا خیال کوئی نہیں رکھتا ۔ پھر جدھر دیکھو جلد با زی اور جانوروں اور پرندو ں پر ظلم ہو ر ہا ہے ۔ اس کے ابو بولے .... بہت خوب ! ہما را بیٹا تو بہت سمجھدار ہے اور واقعی حفظان صحت کا علم بھی رکھتا ہے ۔ اس نے کہا ہم ان معصوم پرندو ں کو کیو ں قید کر تے ہیں ؟ یہ کھلی فضا میں اڑتے ہیں تو اپنی زندگی کو انجوائے کر تے ہیں۔ اس لیے اگر آپ اجا زت دیں تو میں چڑیا ں اور طو طے آزاد کر دو ں۔ ہم اپنی تفریح طبع کے لیے ذرا سے وقت دل کو بہلا نے کے لیے ان کو قید رکھتے ہیں ۔ ہا ں بیٹا تم ٹھیک کہتے ہو ۔ میری طرف سے اجازت ہے تم جب چاہو انہیں آزاد کر سکتے ہو۔ شکریہ ابا جا ن بہت بہت شکریہ ۔ وہ بھا گا بھاگا گیا اور پرندوں کو اڑادیا۔ ابا جان اب لو گو ں کو کس طرح یہ بتا یا جا ئے کہ وہ گھوڑوں اور گدھو ں پر ظلم نہ کریں ۔ بیٹے اس کے لیے توتمہیں با قاعدہ مہم چلانی پڑے گی او ر انجمن انسداد بے رحمی حیوانات کا فون نمبر ڈھونڈکر ان سے کہو کہ تم اس کے ممبر بننا چاہتے ہو ۔ ان کے ساتھ مل کر کام کرو شاید تم اپنے ملک کے لوگو ں کی تربیت کر سکو۔
اس کے بعد سلما ن انجمن کا ممبر بن گیا ۔ انہو ں نے ٹی وی ، ریڈیو ، اخبا ر میں سلوگن شائع کر وائے ۔ اشتہا ر چھپوا کر تقسیم کرائے کہ بے زبان جانوروں پر ظلم نہ کیا جائے ۔ شہر میں تین چا ر جگہو ں پر جانوروں کے پانی پینے کے لیے حوض بنوائے جہاں وہ نہابھی سکتے تھے۔ جانورو ں کے لیے ایک بہترین وٹرنری ہسپتال کا قیام عمل میں لا یا گیا ۔ اگلے سال جب 23 مارچ یو م جمہوریہ کے مو قع پر ایوارڈز کا اعلا ن کیا گیا تو یہ ایوار ڈ لینے والا سب سے کم عمر انسان سلمان تھا ۔ وہ خو شی خو شی ابو کے ساتھ اسلام آباد یہ ایوارڈ لینے جا رہا تھا۔اس کے سارے خاندان والے ، دوست اس اعزاز پر خوش تھے اور با ری با ری مبارک دینے آئے ۔ سکول کے پرنسپل نے اسمبلی میں سلمان کا تعارف کر ایا۔ اس کی تعریف کی اور کہا کہ ہما رے سکول کی خوش نصیبی ہے کہ سلمان جیسا سٹوڈنٹ ہمارے سکول میں پڑھتا ہے ۔ آج سے سلمان سکول میں ہیڈ بوائے ہو گا اور اس کی فیس ہم نے معا ف کر دی ۔ میں اپنی جیب سے 500 روپے ماہوار وظیفے کا اعلا ن کر تا ہوں ۔ اگر ہما رے ملک کا ہر بچہ ایسا عقلمند ، بہادر اور جدوجہد کرنے والا ہو جائے تو پا کستا ن ان شا ءاللہ بہت ترقی کر ے گا۔
خوف خدا کی انتہا (عائشہ صدیقہ ، سنجھوروسندھ)
٭ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ ایک شب اپنے مکان کی چھت پر خوف خدا سے گریہ و زاری کر رہے تھے اور آپ کے آنسو نیچے گر رہے تھے کہ ایک شخص پر کچھ قطرے ٹپک گئے ۔ اس نے آوا ز دے کر پو چھا ” یہ پانی پا ک ہے کہ نا پا ک “ آپ نے جوا ب دیا ” اپنے کپڑو ں کو پا ک کر لینا کیونکہ یہ ایک گناہ گار کے آنسو ہیں ۔“ ٭ایک بار حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کسی میت کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے ۔ وہاں بہت روئے اور فرمایا : ” اے لو گو !جب آخری منزل آخرت ہے تو پھر ایسی دنیا کے خوا ہش مند کیو ں ہو جس کا انجام قبر ہے اور ایسے عالم سے کیو ں نہیں ڈرتے جس کی پہلی منزل ہی قبر ہے ۔“ ٭ایک با ر لوگوں نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے پو چھا : ” اس قدر زہد و تقویٰ کے با جو د آپ اتنا زیا دہ کیو ں روتے ہیں؟ فرمایا : میں اس لیے رو تا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ میری کسی خطا پر اللہ تعالیٰ گرفت کر کے یہ فرما دیں : اے حسن ! میری بارگاہ میں تیر ی کوئی وقعت نہیں ۔ تیری اس خطا کے باعث تیری تمام عبا دت کر رد کر دیا گیا ہے ۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 737
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں