اعزاز اپنے تمام بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس کی عمر 47سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہر طرح سے نوازا تھا۔ اس کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ کم عمری ہی میں اس کی شادی بھی ہو گئی تھی اور اس نے اپنا الگ مکان بھی بنا لیا تھا۔ خاندانی کاروبار میں بھی اس کی حصہ داری تھی لیکن اس نے اپنا الگ کاروبار بھی شروع کیا تھا جس سے اس کی آمدنی کے مزید ذرائع پیدا ہو گئے تھے۔ وہ اپنے پورے خاندان میں سب سے خوشحال سمجھا جاتا تھا۔ اپنی غریب پروری اور حسن اخلاق کی وجہ سے وہ سب کا محبوب اور چہیتا بھی تھا۔ اولاد میں اس کی بیٹی عطیہ بتول سب سے بڑی تھی جس نے دسویں یعنی میٹرک میں اول نمبر سے کامیاب ہونے کے باوجود کالج میں طلباءو طالبات کی مخلوط تعلیم کی وجہ سے داخلہ سے انکار کر دیا تھا اور اپنے شہر کے لڑکیوں کے ایک دینی مدرسہ میں تین سال عالمیت کے کورس میں داخلہ لیا تھا۔ اپنی تمام سہیلیوں اور محلہ و خاندان میں قدرت کی طرف سے عطا کردہ غیرمعمولی حسن و جمال کے علاوہ حیاءو عفت اور اپنے اخلاق کی وجہ سے وہ سب کی منظور نظر تھی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ بہو بن کر ان کے گھر کی زینت بنے۔ پڑھائی کے دوسرے سال اعزاز نے ایک دیندار، پڑھے لکھے قریبی عزیز سے اس کا رشتہ طے کر دیا تھا اور پڑھائی کے تیسرے سال امتحان کے بعد شادی بھی طے کر دی تھی۔ دن تیزی سے گزر رہے تھے۔ شادی کی تاریخیں قریب آرہی تھیں۔ اعزاز بھی اپنی لاڈلی بیٹی کی شادی کے دن گن رہا تھا۔ پورے گھر میں بھی اس کیلئے ہر طرح کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ گھر کے رنگ و روغن کے علاوہ اس نے زیورات و کپڑوں کی خریداری بھی مکمل کر لی تھی۔ اچانک ایک د ن بتول کی طبیعت بگڑ گئی اور پیٹ میں ناقابل برداشت درد کی وجہ سے اس کی حالت غیر ہو گئی۔ مسلسل قے نے اس کو بے حال کر دیا، فیملی ڈاکٹر کو دکھایا گیا، اس پر بھی جب افاقہ نہیں ہوا تو قریب ہی واقع شہر کے مشہور ہسپتال میں اس کو داخل کیا گیا۔ وہاں بھی جب اس کو افاقہ نہیں ہوا تو ڈاکٹر نے اعزاز کو مشورہ دیا کہ بتول کے پیٹ کا اسکین کیا جائے تاکہ صحیح صورت حال سامنے آسکے۔ لیباٹری سے پیشاب و خون کی رپورٹ کے ساتھ جب اسکین رپورٹ بھی موصول ہوئی تو اعزاز کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور پیروں تلے کی زمین کھسک گئی۔ جب ڈاکٹر کی زبان سے اس نے یہ سنا کہ بتول کو کینسر کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے رائے دی کہ فوراً کسی کینسر کے ماہر سے رجوع کریں اور اس کے علاج میں تاخیر نہ کریں۔ بتول کو بھی اپنی رپورٹ کا شدت سے انتظار تھا۔ افسردگی و مایوسی کی حالت میں والد کے کمرہ میں داخل ہونے کے بعد اس کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ رپورٹ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ بتول کے اصرار کے باوجود اعزاز صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتا رہا کہ بیٹی کوئی بات نہیں ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، یہاں سے قریب میں پیٹ کی بیماریوں کا ماہر ڈاکٹر ہے۔ جلد اور مکمل علاج کیلئے یہاں کے ڈاکٹر نے ہمیں وہاں جانے کا مشورہ دیا ہے۔ بتول نے کہا کہ ابو جب تک آپ سچ سچ نہیں بتائیں گے میں نہ کوئی گولی کھائوں گی اور نہ دوا۔ ہمارا رب جو بیماری کامالک ہے، وہی صحت کا بھی مالک ہے۔ کوئی منفی بات ہو گی تو ہم اس سے رجوع کریں گے اور اسی سے شفا مانگیں گے۔ آپ کیوں گھبراتے ہیں۔ یہ سن کر اعزاز کو بتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ تفصیل سننا تھا کہ بتول کی زبان سے بے ساختہ یہ پراعتماد جملہ نکلا کہ ابو! مجھے کوئی بیماری تو ہو سکتی ہے لیکن کینسر کا مرض مجھے لاحق نہیں ہو سکتا۔ اعزاز حیرت میں پڑ گیا۔ اس نے پوچھا، بیٹی! کیا بات ہے؟ ڈاکٹر ہر قسم کے ٹیسٹ کے بعد ایک نتیجے پر پہنچے ہیں اور تم اس سے انکار کررہی ہو۔ بتول نے کہا کہ ابو! بات دراصل یہ ہے کہ میں نے ایک حدیث پڑھی تھی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی کو کسی آزمائش و بیماری میں مبتلا دیکھے اور اس مصیبت یا بیماری میں اپنے مبتلا نہ ہونے پرپیشگی اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بیماری اس کو کبھی لاحق ہی نہیں ہو سکتی، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ ابو! جب سے میں نے آنکھ کھولی ہے اور ہوش سنبھالا ہے تو میں نے سنا ہے کہ دنیا کی سب سے خطرناک اور موذی بیماری کینسر کی ہے، اس میں لوگ بہت ہی کم بچ پاتے ہیں۔ اس میں مبتلا مریضوں کی تکلیف اس قدر درد ناک ہوتی ہے کہ کسی سے دیکھی نہیں جا سکتی۔ اس حدیث کے سننے کے بعد جب بھی میں نے کسی کینسر کے مریض کو دیکھا ہے یا کسی کے بارے میں سنا ہے کہ اس کو یہ بیماری لاحق ہو گئی ہے تو میں نے ہمیشہ ان لوگوں کی صحت کیلئے نام لے کر دعا کی ہے اور اللہ کا بار بار اس پر شکر ادا کیا ہے کہ اے رحیم آقا: صرف تیرا احسان و شکر ہے کہ تو نے مجھے اس آزمائش و بیماری سے محفوظ رکھا ہے جس میں فلاں کو تو نے مبتلا کیا ہے اور اپنی مخلوق میں مجھے بہت ساروں پر فضیلت دی ہے۔ ابو! وہ پوری دعا یوں ہے:
”اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی عَافَانِی مِمَّا ابتَلاََکَ بِہ وَفَضَّلَنِی عَلٰی کَثِیرٍ مِّمَّن خَلَقَ تَفضِیلاً“
ابو! کیا وہ اللہ جو ہمیں روز اور ہمیشہ ہر طرح کی مصیبت سے بچاتا ہے اور بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ مانگنے پر اور پیشگی شکر ادا کرنے پر ان بیماریوں سے محفوظ نہیں رکھے گا۔ ابو! مجھے کوئی دوسری بیماری لاحق ہو سکتی ہے لیکن کم از کم کینسر کی بیماری تو ہو ہی نہیں سکتی۔ پھر بھی آپ کی مرضی ہے۔ آپ اطمینان قلب کیلئے کسی اور ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں یا پھر اس ڈاکٹر کے کہنے پر میرا علاج شروع کر دیں۔ اعزاز بتول کی یہ باتیں سن کر مسرت آمیز حیرت میں مبتلا ہو گیا، اس کو امید کی ایک کرن نظر آئی ، اس نے جب اپنے بڑے بھائی سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا اور ڈاکٹر و بتول کی متضاد باتیں اس کو بتائیں تو اس نے کہا کہ اعزاز: کیوں نہ ہم ایک بار ملک کے سب سے بڑے کینسر علاج کے مرکزسے رجوع کریں جہاں ہر طرح کی یورپ و امریکہ سے درآمد کردہ جدید مشینوں سے بہت ہی باریک بینی سے کینسر کے ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ وہاں کی جانچ اگرچہ بہت مہنگی ہوتی ہے لیکن اللہ نے تمہیں اتنے مالی وسائل و اسباب دیئے ہیں کہ تمہارے لیے ان اخراجات کو برداشت کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چنانچہ دوسرے ہی دن اعزاز بتول کو ہسپتال میں بھرتی کر دیا۔ وہاںکینسر کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر آپ اطمینان بخش اور تفصیلی رپورٹ چاہتے ہیں تو دو تین دن آپ کو انتظار کرنا پڑے گا اور اس کے اخراجات بھی کسی عام آپریشن سے کم نہیں ہوں گے۔اعزاز نے جب ہاں کہا تو بتول کے متعدد ٹیسٹ شروع ہو ئے۔ ادھر اعزاز برابر خدا تعالیٰ سے لو لگائے ہوئے تھا اور گھر میں بھی سب لوگ اس بڑے ہسپتال کی رپورٹ کے منتظر تھے۔ چوتھے دن ڈاکٹر نے پیغام بھیجا کہاعزاز ان کے آفس میں آکر ملاقات کرے۔ اعزاز کا دل دھڑکنے لگا۔ اس نے دل ہی دل میں اللہ سے کہا کہ اے اللہ جب تمام سہارے ختم ہو جاتے ہیں تو صرف تیرا ہی سہارا باقی رہتا ہے۔ میری نہیں اے اللہ کم از کم تو اپنی اس پُراعتماد بندی کے یقین و بھروسہ کی لاج رکھ اور خوش کن خبر سنا دے۔ ڈاکٹر کے کیبن میں داخل ہوتے وقت جب ڈاکٹر پر اعزاز کی نظر پڑی تو امید کی پہلی کرن اس طرح نظر آئی کہ ڈاکٹر مسکرا رہا تھا اور دور سے ہی مبارک مبارک کہہ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ اعزاز صاحب! آپ کی بچی کی رپورٹ تو ہمارے طبی اصولوں کے مطابق ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ اس کا نتیجہ اس کے مطابق نہیںہے۔ اعزاز نے کہا ڈاکٹر صاحب میں آپ کی بات سمجھ نہیں سکا۔ ڈاکٹر نے کہا اس کی تفصیل یوں ہے کہ بچی میں کینسر پیدا ہونے کے تمام اسباب موجود ہیں لیکن اس کے باوجود کینسر کا عارضہ لاحق نہیں ہوا ہے۔ لگتا ہے اوپر والا آپ پر بڑا مہربان ہے۔ اس طرح کے کیس ہمارے پاس لاکھوں مریضوں میں بمشکل ایک دو ہوتے ہیں۔ ہم نے آپ سے پوچھے بغیر اس حیرت انگیز پورٹ کے بعد مزید کئی طرح کے اور بھی ٹیسٹ کروائے لیکن رپورٹ ہمیشہ مثبت ہی رہی۔ اعزاز کی آنکھوں سے یہ سن کر بے اختیار خوشی کے آنسو نکل پڑے۔ اس نے دل ہی دل میں الحمدللہ کہا اور اللہ کا شکر ادا کیا پھر ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ اوپر والے کا شکریہ ادا کیجئے، یہ صرف اس کی مہربانی ہے۔ اعزاز نے واپس آکر جب بتول کو بھی یہ خوش کن رپورٹ سنائی تو اس نے کسی حیرت کا اظہار نہیں کیا اور کہا حدیث کی اس دعا کی برکت سے کینسر سے حفاظت کا یقین تو مجھے پہلے ہی سے تھا۔ اعزاز نے اس وقت فون کے ذریعے گھر والوں کو بھی خوش خبری سنائی اور وہاں بھی افسردگی و مایوسی کی فضا میں اچانک خوشی و مسرت کا ماحول پیدا ہو گیا۔ گویا پورے گھر میں عید کا سماں تھا اور بتول کی شادی کا پیشگی جشن بھی۔ اسی سال بتول کی شادی بھی ہوئی اور اگلے سال ہی وہ ایک بچہ کی ماں بھی بن گئی اور الحمد للہ اب تک وہ معمول کے مطابق نارمل زندگی ہی گزار رہی ہے۔ اس خطرناک اور موذی مرض سے حفاظت پر وہ اب بھی روز اللہ کا شکر ادا کرنا نہیں بھولتی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 734
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں