غالباً دو سال کی بات ہو گی کہ ایک روز میں اپنے ماموں کے ساتھ رحمان میڈیکل سٹور پر گیا۔ تو وہاں ایک سفید باریش بزرگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ جو مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کرنے کے بعد بیٹھ گئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ حضرت مولانا محمد فضل حسین صاحب نور اللہ مرقدہ کے صاحبزادے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہاں میں انہی کا صاحبزادہ ہوں۔ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمانے لگے کہ میں لندن میں ہوتا ہوں اور تقریباً 45,40 سال کے بعدچند ماہ قبل پاکستان آیا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ میرے والد صاحب کو کیسے جانتے ہیں اور مجھے کیسے پہچانا کہ میں مولانا محمد فضل حسین رحمتہ اللہ علیہ کا بیٹا ہوں۔ فرمانے لگے کہ آپکا چہرہ چونکہ ان کی عکاسی کر رہا تھا یعنی ان جیسا مجھے نظر آیا۔ اس لیے میں نے اندازہ لگایا کہ آپ ان کے ہی بیٹے ہوں گے۔ آپ کے والد صاحب کو اس طرح جانتا ہوں کہ جوانی میں میرے چہرے پر دانے نکل آئے تھے اور پورا چہرہ بھر گیا تھا اور ان دانوں میں پیپ وغیرہ پڑ گئی تھی۔ ہر قسم کا دیسی اور ایلوپیتھک علاج کروا چکا تھا۔ مگر دانے ختم نہیں ہو رہے تھے بلکہ اور زیادہ بھرتے جارہے تھے۔ آپ کے والد صاحب کی شہرت سنی تھی کہ کسی اللہ والے بزرگ کے خلیفہ مجاز ہیں اور حکمت سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور ان کا دم اور تعویذ بھی بہت چلتا ہے ، اثر رکھتا ہے، ایک دن اسی غرض سے آپ کے والد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چلا گیا اور ان سے اپنی اس تکلیف کا تذکرہ کیا اور دانے دکھائے تو کچھ سوچنے کے بعد فرمانے لگے اس کا علاج ہوسکتا ہے، اگر آپ میری بات مانیں تو؟ میں نے کہا میں آپ کی بات مانوں گا۔ آپ علاج بتائیں تو فرمانے لگے کہ آپ میرے ساتھ میرے شیخ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چلیں کیونکہ وہ حکمت بھی کرتے ہیں، وہ علاج بھی کریں گے اور دعا بھی کریں گے تو انشاءاللہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ میں جانے کیلئے تیار ہو گیا، آپ کے والد صاحب مجھے اپنے شیخ خواجہ نور بخش رحمتہ اللہ علیہ جو حضرت فضل علی قریشی رحمہ اللہ کے خلیفہ تھے۔ ان کی خدمت میں پھلن شریف ضلع مظفر گڑھ لے گئے۔ شیخ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچ کر آپ کے والد صاحب نے میرے متعلق بات کی تو حضرت خواجہ نور بخش رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ بیٹا اگر تم ڈاڑھی رکھ لو تو ڈاڑھی کی برکت سے دانے تمہارے چہرے کے دانے ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں گے اور دوبارہ نہیں ہوں گے اوراس کے ساتھ ہی ڈاڑھی کی فضیلت اور اہمیت بتائی۔ میں نے شیخ رحمتہ اللہ علیہ کی باتیں سن کر اسی وقت ڈاڑھی رکھنے کی حامی بھرتے ہوئے ڈاڑھی کی نیت کر لی اور شیخ رحمتہ اللہ علیہ نے میرے لیے دعا فرما دی اور ہم واپس چلے آئے۔ جیسے جیسے داڑھی بڑی ہوتی گئی۔ دانے ختم ہوتے گئے اور پھر چہرہ بالکل صاف ہو گیا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی داڑھی مبارک کی برکت ہے کہ اس کے بعد سے آج تک میرے چہرے پر کسی قسم کی کوئی تکلیف یا دانے نہیں ہوئے۔
سنت رسول ا (ڈاڑھی) کی توہین کا نتیجہ
1978ءکے دنوں کی بات ہے کہ ہم ابوظہبی امارات میں تھے اور میں ملٹری ہسپتال میں کام کرتا تھا اور ابوظہبی میں ہمارے گھر پر ہی جمعرات اور جمعہ کو محفل ذکر ہوا کرتی تھی اور اس محفل میں امارات کے بے شمار لوگ ذکر الٰہی کرنے کیلئے آیا کرتے تھے۔ انہی دنوں ایک شخص غلام رسول گوجرانوالہ کی طرف کا تھا۔ وہ نیول فورس میں بھرتی ہو کر ابوظہبی آیا۔ کچھ دوستوں کے ذریعے اسے معلوم ہوا کہ ابوظہبی میں مسجد افغان کے متصل محفل ذکر ہوتی ہے تو وہ بھی دوستوں کے ساتھ اس محفل میںذکر الٰہی کیلئے آنا شروع ہو گیا۔ ایک دن ذکر الٰہی کے بعد ڈاڑھی پر بات چل نکلی تو اس نے اپنا ایک واقعہ سنایاجو بڑی عبرت رکھتا ہے۔ غلام رسول صاحب نے اپنا واقعہ اس طرح سے سنایا کہ میں نیول فورس کراچی میں تھا اور میری منگنی ماموں کی بیٹی کے ساتھ ہو چکی تھی اور میرے ماموں فوج میں کرنل تھے۔ اسی دوران کراچی میں ایک بزرگ نے مجھے ذکرالٰہی کی دعوت دی۔ میں بھی ان کے ساتھ ذکر کی محفل میں شامل ہونا شروع ہو گیا اور مجھ میں باطنی اور ظاہری بہت سی تبدیلی آنی شروع ہو گئی اور اس تبدیلی کا ظاہری اثر یہ ہوا کہ میں نے ڈاڑھی رکھ لی۔ اس کے بعد جب شادی کرانے کیلئے میں چھٹی پر گھر گیا تو گھر والے سب ناراض ہوئے کہ ڈاڑھی کیوں رکھی ہے؟ ابھی تم جوان ہو اور تمہاری شادی کرنی ہے لہٰذا ڈاڑھی کو کٹا دو تو میں نے کہا کہ میں نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم رکھی ہے اب یہ نہیں کٹا سکتا۔ والدہ صاحب نے کہا کہ تمہارا ماموں اپنی بچی کی شادی نہیں کرے گا جب تک ڈاڑھی نہیں کٹائو گے۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رکھی ہے اس لیے یہ نہیں کٹ سکتی، چاہے شادی ہو یانہ ہو۔ ادھر ماموں کو معلوم ہوا تو ماموں نے بھی ڈاڑھی کٹانے کی قید لگا دی کہ جب تک ڈاڑھی نہیں کٹائو گے میں اپنی بچی کی شادی تمہارے ساتھ نہیں کروں گا۔ آخر میں شادی کرائے بغیر چھٹی گزار کر واپس ڈیوٹی پر کراچی آگیا۔ شادی لیٹ سے لیٹ ہوتی گئی۔ آخر لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ میری شادی کرا دیں۔ ڈاڑھی میں خود کٹوا دوں گی، یہ چیز آپ میرے اوپر چھوڑ دیں۔ گھر والوں نے شادی کے دن مقر ر کرکے مجھے اطلاع کر دی۔ میں چھٹی لے کر گھر چلا گیا اور مقررہ تاریخ پر میری شادی ہو گئی۔ شادی کے چند دنوں کے بعد ایک رات میں سویا ہوا تھا۔ کہ میری بیوی نے میری والدہ سے کہا کہ غلام رسول کی سوتے میں ایک طرف سے ڈاڑھی کاٹ دیتے ہیں۔ پھر خود ہی ساری صاف کر دے گا۔ آپ والدہ ہیں آپ کو کچھ نہیں کہے گا اور اگر میں کاٹوں کی تو مجھ سے ناراض ہو گا۔ والدہ اس کی باتوں میں آگئی اور اس طرح میری والدہ کو باتوں میں پھسلا کر میری ایک طرف سے ڈاڑھی کاٹ دی گئی۔ جب میں سو کر اٹھا اور آئینہ کے سامنے گیا تو دیکھا کہ میری ڈاڑھی ایک طرف سے کٹی ہوئی ہے۔ مجھے دیکھ کر بہت دلی رنج اور صدمہ ہوا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ والدہ صاحبہ نے ایسا کیا ہے۔ والدہ کا سن کر میں خاموش ہو گیا کہ رب العزت کا حکم ہے کہ والدین کو اُف بھی نہ کہو اور اب والدہ کو کیا کہوں؟ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا۔ اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ اور باقی ڈاڑھی کو برابر کر لیا اور چھٹی کے بقایا دن خاموشی سے گزار کر واپس کراچی آگیا۔ اور ڈاڑھی آہستہ آہستہ پھر بڑی ہو گئی۔ کراچی سے میں گھر والوں کی خیر خیریت معلوم کرنے کیلئے خط لکھتا رہا مگر گھر سے نہ ہی بیوی کی طرف سے اور نہ والدہ کی طرف سے کوئی جواب آتا۔ آخر 6ماہ کے انتظار کے بعد میں چھٹی لے کر گھر گیا تو دیکھا کہ بیوی یرقان سے بیمار ہو کر بالکل سوکھ چکی ہے۔ اور والدہ بھی بیمار اور ایک ہاتھ کو کوڑھ ہو چکا ہے اور گوشت اتر کر ہاتھ کی ہڈیاں نظر آرہی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بیوی اور والدہ دونوں رونا شروع ہو گئیں اور بیوی قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگیں اور والدہ میرے گلے لگ کررونے اور معافی مانگنے لگیں۔ میں نے کہا آخر بات کیا ہے مجھے کچھ بتائو تو سہی کہنے لگیں کہ پہلے آپ ہمیں معاف کر یں، پھر بتائیں گے۔ میں نے کہا کس بات کی معافی، آخر ہوا کیا ہے؟ کہنے لگیں پہلے معاف کریں۔ میں نے کہا کہ معاف کیا۔ والدہ نے کہا کہ بیٹا میں نے اسی ہاتھ سے آپ کی ڈاڑھی کاٹی تھی۔ جس دن ڈاڑھی کاٹی تھی، اسی دن سے اس ہاتھ میں تکلیف شروع ہو گئی تھی اور اب یہ حالت ہے، بیوی نے کہا میں نے ڈاڑھی کٹوائی تھی۔ اس کی مجھے یہ سزا ملی ہے کہ میں یرقان کی مریضہ ہو کر مرنے کے قریب پہنچ چکی ہوں۔ آپ ہمیں اللہ کیلئے معاف کر دیں۔ غلام رسول صاحب کہتے ہیں کہ میں نے والدہ صاحبہ اور بیوی دونوں کو کہا کہ اصل میں آپ میرے مجرم نہیں ہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مجرم ہیں۔ آپ نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی تھی۔ اس لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچے دل سے معافی مانگیں،میں نے تو معاف کر ہی دیا ہے۔ غلام رسول صاحب نے بتایا کہ والدہ اور بیوی دونوں نے اللہ سے رو رو کر سچے دل سے معافی مانگی۔ تو اس کے بعد بغیر دوائی و علاج کے والدہ صاحب اور میری بیوی دونوں ہی خود بخود ٹھیک ہونا شروع ہو گئیں اور آہستہ آہستہ صحت مند ہو گئیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 718
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں