ہفتہ وار درس سے اقتباس
جیسا یقین ویسی عطا
میرے محترم ساتھیو! اصل چیز یقین کی طاقت ہے۔ اعمال پر یقین ہی اصل چیز ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہا ہے تو اس کو یقین ہوتا ہے کہ اس کا رب اس کی طرف متوجہ ہے اور اس کی دعا سن رہا ہے۔ اگر اس کو اس چیز کا یقین نہ ہو تو اس کا دعا مانگنا اور نہ مانگنا ایک برابر ہے۔ مزید یہ کہ غافل دل کی دعا اللہ پاک قبول نہیں فرماتے۔ ایک کافر کا ایک بت پر یقین اتنا ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے تمام مسائل اس بت نے دور کیے ہیں۔ اصل میں کرتے تو اللہ پاک ہیں مگر شیطان نے ان کے ذہن میں بٹھا دیا ہے کہ بت پر یقین کر، اس سے مانگ اور اس کا یہ یقین اس کے مسئلے کا حل کرواتا ہے۔
بت بے چارے کہا ں حل کر تے ہیں ۔ بت مکھی نہیں اڑا سکتے ، اس پر کتے پیشاب کر جا تے ہیں ، وہ اُن کتوں کو نہیں رو ک سکتے ۔ اللہ جل شانہ‘ کی ذات عالی پر یقین ہو ۔ حدیثِ قُدسی کا مفہو م ہے کہ میرے بندے میں تیرے گمان کے بقدر تیرے ساتھ معاملہ کرو ں گا۔ یہ غالباً حدیثِ قدسی ہے ورنہ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ میرے بندے تیرے گمان کے بقدر تو جیسے میرے ساتھ گمان کرے گا میں تیرے ساتھ ویسے معاملہ کروں گا اور گمان اگر کامل ہو ، یقین کامل ہو ۔ اللہ جل شانہ‘ پھر عطا فرماتے ہیں اور یقین اگر ڈھیلا ہو تو پھر جیسا یقین ویسی عطا۔
یقین ایسا ہو
ایک بندے نے سنا کہ فلاں بندے نے گن پوائنٹ پر اتنے پیسے چھین لیے۔ اس کو اور تو کچھ نظر نہ آیا، گنے کا چھلکا پڑا ہوا تھا۔ اس نے وہ اٹھا لیا اور ایک راہ جاتے بندے سے کہنے لگا خبردار جو کچھ جیب میں ہے نکال دے۔ چھلکابندوق کی طرح سامنے کیا۔ اس نے اس کو چار آنے دے دئیے۔ اس نے کہا تیرے ہتھیار کے بقدر میں نے تجھے دیا ہے ۔ جتنا طاقت ور تیرا ہتھیا ر ہو گا اتنا میری جیب سے نکلے گا ۔ اللہ والو! کرین طاقت ور ہو گی تو وزنی چیز اٹھائے گی ورنہ کرین خود ہی اٹھ جائے گی ۔ ا رے بھئی کرین کتنی وزنی ہو تی ہے نہ معلوم اس میں لو ہا کتنا پگھلا پگھلا کر ڈالا جا تا ہے کہ یہ وزنی بنے تو وزنی چیز کو اٹھائے گی۔ اب تیرا یقین وزنی ہو گا تو اتنی اللہ کی طاقت کو کھینچے گا۔ ارے مقناطیس طاقت ور ہو گا تو لوہے کو کھینچے گا۔ ہمارا یقین طاقت ور ہے ہی نہیں ۔ تو میں بات کر رہا تھا بعض لوگ میرے پاس آکر کہتے ہیں جو آپ نے ذکر بتا یا۔ وہ ہم نے کیااور ہما را کا م بن گیا ۔ میں نے کہا بھئی اس کو یقین ہے۔ ایک ساتھی کہنے لگا میں درس میں آتا ہو ں اور جس مشکل کے لیے دعا کر تا ہو ں میرا کام بن جاتاہے ۔ کہنے لگے جب پریشانی ہو ، دم کیا ہوا پانی پیتا ہو ں ، جسم پر ملتا ہو ں ، گھر والو ں کو دیتا ہو ں ۔ میرا یقین ہے میرے کا م بن جا تے ہیں۔ اگر یقین نہیں ہے تو چاہے سار ا قرآن پڑھ لے ، کعبہ بھی چلا جائے کچھ نہ ملے گا۔ ارے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے سامنے چو بیس گھنٹے بیٹھنے والے کو اگر یقین نہیں ہو تاتوکچھ نہیں ملتا اور یہا ں دور سے بیٹھ کے درودپا ک سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجنے والے اور اس درود شریف کے وسیلہ سے دعائیں کرنے والے کو اگر یقین میسر ہے توان کا کام بن جاتاہے۔ اللہ والو، یقین پر کام بنتے ہیں۔ آپ یقین جانئیے کہ اپنے حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں جاتے تھے تو دل میں یقین ہو تا تھا کہ حضرت کی خدمت میں جا رہا ہو ں، دعائوں کے لیے عرض کروں یا نہ کروں بس حضرت کی خدمت کر تا رہوں۔ جو اعمال بتائے ہیں، کر تا رہو ں۔ ان کی نظر وں میں رہو ں اور بس میرا کام بن جائے اور اللہ بنا دیتا تھا ۔ یقین کی طاقت پر پہلے بنتے تھے اور اب بھی بنتے ہیں۔
مر شد پر یقین تھا سو فیصد کہ ان کی توجہ، ان کی دعائیں ، اللہ کی ذات پا ک سے ان کے تعلق کی برکت سے اللہ پاک میرے کام بنائیں گے۔ کسی نے حضرت پیرتوکل شاہ انبالوی رحمتہ اللہ علیہ (بڑے اللہ والے گزرے ہیں) اُن سے پو چھا کہ حضرت کچھ لو گ بعض فقیروں کے پا س ہو تے ہیں۔ کچھ دور سے آنے والے ہوتے ہیں، دور سے آنے والے پاجا تے ہیںاور جو ساتھ رہنے والے ہوتے ہیں، محروم رہ جاتے ہیں۔خالی کے خالی رہ جاتے ہیں ۔ فرمایا معاملہ یقین پر ہے۔ اندر کا یقین کہ اعمال کے اندر جو تاثیر میرے رب نے رکھی ہے اور جس کے وعدے کیے ہیں ، وہ وعدے سچے ہیں۔ بقول ایک اللہ والے کے ، وعدے اور وعید پہ یقین ہو۔جو اس گناہ پر عذاب کا وعدہ ہے وہ بھی حق ہے اور اس نیکی پر جو ثواب کا وعدہ ہے وہ بھی حق ہے۔ ارے یقین کی طا قت پر اللہ جل شانہ‘ رزق میں اضافہ فرما تے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں یقین کی نعمت عطا فرمائے۔
رزق بڑھانے کی چابیاں
رزق کا دروازہ کھلوانے کی کچھ چابیاں عرض کر رہا ہوں فرمایا۔ استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لے۔ ہاں مشکوٰة شریف کی ایک حدیث ہے، مفہوم ہے جب آدمی کی خطائیں بڑھتی ہیں۔ اس کا رزق تھوڑا ہو جاتا ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے عذاب آنا چاہتا ہے مگر یہ رزق عذاب کی ڈھال بن جاتاہے۔ استغفار سے رب کو منانا ہے۔ اللہ جل شانہ کے سامنے اپنی فریاد کو سنانا ہے اور اس سے عرض کرنا ہے ۔آج کے دور کی مصیبتوں میں بڑا وظیفہ استغفار ہے۔ اس لیے ہمارے حضرت رحمتہ اللہ علیہ جب بیعت فرماتے تھے تو فرماتے تھے کم از کم ایک تسبیح استغفار کی صبح و شام کر لیا کرو اور تین تسبیحات بتاتے تھے۔ جیسے ایک تسبیح درود شریف کی، ایک تیسرے کلمے کی اور ایک استغفار کی۔ مہمان کو کھانا کھلانے سے رزق بڑھتا ہے۔ صلہ رحمی سے رزق بڑھتا ہے۔ حج کرنے سے رزق بڑھتا ہے۔ جو صلہ رحمی کرتا ہے۔ اللہ پاک اس کی عمر بڑھاتے ہیں، اس کا رزق بڑھاتے ہیں۔ اللہ اسے بری موت سے بچاتے ہیں اور صدقہ کرنے سے رزق بڑھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھا کر فرمایا کہ صدقہ کرنے سے رزق بڑھتا ہے۔ روح جتنی طاقت ور ہو گی ، اس کے مطابق روٹی ملے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذات کا یقین اور اپنے غیب کے خزانوں میں سے برکت والا رزق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پرفرمائے۔ (آمین)
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 712
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں