ایک زمانہ تھا جب لوگ بیٹوں کی دعا کرتے تھے‘ منتیں مرادیں مانتے تھے اور بیٹوں کو بھی ان سے بے پناہ محبتوں کا احساس ہوتا تھا کہ وہ فرماں برداری اور خدمت کو اپنا مقصد حیات گردانتے تھے مگر اب بے جا لاڈ پیار‘ جائز ناجائز خواہشوں کو پورا کرنے والے والدین بیٹوں کی خدمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس میں کسی کا قصور نہیں صرف ان کی غلط تربیت کا قصور ہوتا ہے۔
ساتھ والے گھر سے زور شور سے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں‘ صدیقی صاحب کے گھر سے اس قسم کی آوازوں کا آنا اب معمول بنتا جارہا ہے۔ محلے والوں نے اب اس صورتحال پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ مگر میں نے اپنی حساس طبیعت کی بناء پر پھرغور کرنا شروع کردیتی ہوں۔
صدیقی صاحب اور ان کی بیوی قدسیہ خالہ دونوں بہت ملنسار لوگ ہیں ہم جب شروع میں یہاں شفٹ ہوئے تو قدسیہ خالہ کی اپنائیت نے ہی ہمیں اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا۔
قدسیہ خالہ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ دونوں بیٹے بڑی دعاؤں اور مرادوں کے بعد ہوئے تھے۔ اس بات کا دونوں کو بخوبی احساس دلایا گیا۔ آخرکار یہ ہوا کہ دونوں نے اپنے آپ کو کسی ریاست کا بادشاہ سمجھنا شروع کردیا اور والدین اور بہنیں انہیں زرخرید غلام لگنے لگے۔ صدیقی صاحب نے بارہا قدسیہ خالہ کو سمجھایا کہ بیٹوں کو اس قدر لاڈپیار نہ کرو ورنہ نقصان اٹھاؤ گی۔ بیٹیوں سے بھی پیار کیا کرو وہ خدمت کرتی ہیں۔مگر قدسیہ خالہ نے ایک نہ سنی ہر بات پر ان کی ڈھال بن جایا کرتی تھیں۔ بیٹیوں کے ساتھ زیادتی کرکے وہ ان دونوں کی خواہشیں پوری کرتی تھیں۔ آخر صدیقی صاحب نے ہار مان کر خاموشی اختیار کرلی۔
بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی گئی‘ غرض ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا گیا۔ صدیقی صاحب نے ایک ایک کرکے دونوں بیٹوں کے ساتھ تینوں بیٹیوں کی بھی شادیاں کردی۔ تینوں بیٹیاں اپنے گھر کی ہوئیں تو صدیقی صاحب نے سکھ کا سانس لیا۔ انہوں نے قدسیہ خالہ کو ان کے بیٹوں کی ناز برداری اٹھانے کیلئے اکیلا چھوڑ دیا دو سال قبل ہی صدیقی صاحب وفات پاگئے۔اب بہو بیٹوں نے پر پرزے نکالنے شروع کیے۔ بڑے بیٹے عرفان کو باہر کی ایک فرم میں ملازمت کی آفرہوئی اور وہ بیوی سمیت لندن چلا گیا۔
قدسیہ خالہ کو دکھ تو بہت ہواکہ ان سے اجازت کی کسی نے ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ انہیں تو صرف جانے کی اطلاع دی گئی تھی۔ صدیقی صاحب کے جانے کے بعد تو وہ بجھ سی گئی تھیں مگر بیٹے کی دوری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا۔ ابھی یہی غم کیا تھے کہ چھوٹے بیٹے کامران اور اس کی بیوی نے بھی اپنی اصلیت دکھانی شروع کردی۔پہلا حملہ قدسیہ خالہ کے کمرے پر ہوا انہیں کمرے سے بے دخل کرکے چھوٹے سٹور نما کمرے میں جانا پڑا کیونکہ ان کے کمرے کو ڈرائنگ روم کا درجہ دیا جانا تھا۔کام تو وہ پہلے بھی کرتی تھیں مگر بہو نے اب کچھ بھی کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس کے مطابق کہ سارا دن تو بچوں کے کاموں میں صرف ہوجاتا ہے تو قدسیہ خالہ گھریلو ملازمہ کے ساتھ دن بھر کاموں میں لگی رہتی ہیں اس پر بھی بہو بیٹے کے ماتھے کے بل کم نہیں ہوتے۔ان کا بس چلے تو وہ قدسیہ خالہ کو ایدھی ہوم چھوڑ آئیں۔ بیٹیاں آتی ہیں اور ماں کی حالت زار پر دکھی ہوتی ہیں مگر وہ چھوٹے بھائیوں کو کچھ کہہ نہیں سکتیں کیونکہ انہیں یہ حق کبھی دیا ہی نہیں گیا تھا تو اب وہ کیا کرسکتی تھیں…؟ ماں کی دلجوئی کرکے وہ اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتی تھیں کیونکہ بھابی کا موڈ انہیں دیکھتے ہی خراب ہوجاتا ہے۔
بہو بیگم بس صبح و شام ساس پر حکم چلاتی ہیں ذرا سی غلطی پر برا بھلا کہا جاتا ہے۔ بڑھاپے اور کمزوری کے باعث ان سے اب گھر کے کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہوتے۔
فرصت کے کسی لمحے میں وہ اکثر میرے پاس آکر دل کا بوجھ ہلکا کرتی ہیں۔ میں انہیں دلاسہ دیتی ہوں ہمت بڑھاتی ہوں اور میں ان کے لیے دعا کے علاوہ کر بھی کیا کرسکتی ہوں۔
آج بھی کسی معمولی غلطی پر ان کی بہو نے انہیں خوب بُرا بھلا کہا اور بیٹے نے سب سن کر بھی ماں کی حمایت میں ایک لفظ نہ کہا کہ وہ ماں جو ہماری ڈھال بن جایا کرتی تھی وہ آج ہمارے آسرے پر ہے مگر اس کی آنکھوں پر خودغرضی کی پٹی بندھی ہوئی ہے اور وہ نجانے کب کھلے۔ قدسیہ خالہ کی باتیں سن کر میں دیر تک سوچتی ہوں کہ قدسیہ خالہ نے غلط تربیت کرکے اپنے دونوں بیٹوں کوہاتھ سے نکال دیا۔ اگر وہ بے جا لاڈ پیار کی بجائے ذرا سی سختی سے کام لیتیں تو شاید انہیں آج اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہوتا۔
قدسیہ خالہ کے حالات بیان کرنے کے بعد میں میں ان تمام ماؤں سے التجا کرتی ہوں کہ وہ خدارا اپنے بیٹوں کی تربیت سے غافل نہ ہوں۔ تربیت میں صرف لاڈ پیار‘ بے جا ضد پوری کرنا اور بے جا حمایت نہیں آتی بلکہ پیارو محبت سے انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ والدین اور بہنیں بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ انہیں اچھا اورمہذب شہری بننے کے ساتھ اچھا بیٹا اور بھائی بھی بننا ہے نہ کہ صرف اچھا شوہر……!!!غلط تربیت کے زیراثر انہوں نے بہنوں کو تو کیا ماں باپ کو بھی نظرانداز کردیا اوراپنی زندگیوں میں مگن ہوگئے مگر یہ بھول گئے کہ قدسیہ خالہ کو تو ان کی غلطی کی سزا تاعمر ملتی رہے گی مگر انہیں مکافات عمل کا سامنا جب ہوگا تو وہ کیا کریں گے۔ کیا معافی مانگنے کیلئے وہ ہستی جس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے وہ شاید دنیا میں نہ ہو۔
ایک غلط فہمی: ہمارے معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کمی کے باعث لڑائی جھگڑے ہورہے ہیں لیکن یہ غلط سوچ ہے بلکہ تعلیم تو عام ہے لیکن تربیت نہیں ہے۔ دوسرا تعلیم کا لفظ آتے ہی ہمارا دھیان دنیا کی طرف جاتا ہے تو اس تعلیم سے پیسہ تو آجاتا ہے لیکن تربیت صرف اور صرف دینی تعلیم سے ہی ہوتی ہے جو کہ والدین اور معاشرے میں سکون کا باعث بنتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں